نکاح میں استطاعت پر مبنی شرط کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد: 3، باب: نکاح و طلاق کے مسائل، صفحہ: 160

نکاح میں شرائط کے جواز کا شرعی حکم

سوال

علمائے کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر کوئی مرد اپنے نکاح کے موقع پر مہر کے طور پر بیس ہزار روپے دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور لڑکی والوں کی طرف سے یہ شرط رکھی جائے کہ شادی کے بعد جب اللہ تعالیٰ اسے استطاعت دے تو وہ لڑکی کو پانچ تولہ سونا بنوا کر دے گا، تو کیا ایسی شرط قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہے یا نہیں؟ براہِ کرم تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔
(محمد نسیم سلفی، پشاور)

جواب

الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، اما بعد!

اس مسئلے کی وضاحت قرآن و حدیث کی روشنی میں درج ذیل ہے:

1. قرآن کریم سے استدلال:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

﴿قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ﴾
"میں چاہتا ہوں کہ دوبچیوں میں سے ایک کا نکاح تمھارے ساتھ کردوں، بشرطیکہ تم آٹھ سال میری خدمت کرو۔”
(القصص: 27)

اس آیت مبارکہ سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ لڑکی کا ولی نکاح میں شرط رکھنے کا اختیار رکھتا ہے۔

2. قرآن کی ایک اور آیت:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما تَر‌ٰضَيتُم بِهِ مِن بَعدِ الفَريضَةِ﴾
"اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں جس پر تم مقرر کئے ہوئے حق مہر کے بعد باہم راضی ہو جاؤ۔”
(النساء: 24)

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حق مہر کے تعین کے بعد اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے کسی شرط پر متفق ہوں، تو وہ جائز ہے۔

3. حدیثِ مبارکہ سے استدلال:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج”
"تم پر یہ ضروری ہے کہ وہ شرطیں پوری کرو جن کے ساتھ تم نے نکاح کئے ہیں۔”
(صحیح بخاری: 5151، باب الشروط فی النکاح)

یہ حدیث مبارکہ نکاح کے وقت کی گئی جائز شرطوں کی پاسداری کو ضروری قرار دیتی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو باب الشروط فی النکاح کے تحت ذکر کیا ہے، جس سے ان کا موقف بھی واضح ہوتا ہے کہ نکاح میں کی جانے والی جائز شرطیں شریعت کے مطابق نافذ العمل ہوتی ہیں۔

شرعی حکم:

سوال میں مذکور شرط — یعنی نکاح کے وقت بیس ہزار روپے مہر کے ساتھ ساتھ یہ طے کر لینا کہ شادی کے بعد جب اللہ تعالیٰ استطاعت دے گا تو شوہر بیوی کو پانچ تولہ سونا بنوا کر دے گا — میرے علم کے مطابق نہ تو کسی قرآنی آیت کے خلاف ہے، اور نہ ہی کسی صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ لہٰذا، یہ شرط بالکل جائز اور درست ہے۔

یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ نکاح کرنے والے مرد، اس کے رشتہ دار یا دوست احباب اس شرط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ راضی نہ ہوں تو ممکن ہے کہ نکاح نہ ہو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ دونوں فریق آپس میں صلح و مشورے سے معاملہ طے کر لیں، اور یہی خیر و برکت کا راستہ ہے۔

وما علینا الا البلاغ۔
(مورخہ: 4 اپریل 2011ء)

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے