1. وضو کریں۔
حدیث: لا تقبل صلوة بغير طهور وضو کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔ رواہ مسلم فی صحیحہ: (535) 224/1
[نیز دیکھیے صحیح بخاری: 6251]
2. شرائط نماز پوری کریں۔
حدیث: وصلوا كما رأيتموني أصلي ”اور نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ رواہ البخاری فی صحیحہ: 631،
3. قبلہ رخ کھڑے ہو جائیں۔
موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي (ج 2 ص 704) و دیکھیے صحیح البخاری (6251)
4. تکبیر الله أكبر کہیں۔
عبدالرزاق فی المصنف (389/3، 390 ح 1328) وسندہ صحیح، وصححه ابن الجارود بروایة في المنتقى (540)۔
زبان کے ساتھ نماز جنازہ کی نیت ثابت نہیں ہے.
5. تکبیر کے ساتھ رفع یدین کریں۔
عن نافع قال: ”كان عبدالله بن عمر رضي الله عنهما يرفع يديه فى كل تكبيرة على الجنازة.“
ابن ابی شیبہ فی المصنف 296/3، 1380 اوسندہ صحیح،
6.اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں۔
البخاری: 740، والامام مالک فی الموطأ 1/159 ح 377
7. دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر، سینے پر رکھیں۔
احمد فی مسند 5/226، 22313 وسندہ حسن، وعنه ابن الجوزی فی الحقیق 283/1، 477۔
تنبیہ:
یہ حدیث مطلق نماز کے بارے میں ہے جس میں جنازہ بھی شامل ہے کیونکہ جنازہ بھی نماز ہی ہے۔
8.أَعُوذُ بِٱللَّهِ ٱلسَّمِيعِ ٱلْعَلِيمِ مِنَ ٱلشَّيْطَانِ ٱلرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ پڑھیں۔
سنن ابی داود: 775 وسندہ حسن
9. «بسم الله الرحمن الرحيم» پڑھیں۔
النسائی: 906 وسندہ صحیح وصححه ابن خزیمہ: 499، وابن حبان الاحسان: 797، والحاکم علی شرط الشیخین 2/321 ووافقه الذہبی واعطى من نصحفه۔
10. سورہ فاتحہ پڑھیں:
البخاری: 1335، وعبدالرزاق فی المصنف 490، 489/3 ح 6428 وابن الجارود: 540۔
چونکہ سورہ فاتحہ قرآن ہے لہذا اسے قرآن (قراءت) سمجھ کر ہی پڑھنا چاہیے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ قراءت (قرآن) سمجھ کر نہ پڑھی جائے بلکہ صرف دعا سمجھ کر پڑھی جائے ان کا قول باطل ہے۔
11. آمین کہیں۔
النسائی: 906 وسندہ صحیح، ابن حبان الاحسان: 1805، وسندہ صحیح
12. بسم الله الرحمن الرحيم پڑھیں۔
مسلم فی صحیحہ 400/3، وبیک والشافعی فی الام 1/108 وصححه الحاکم علی شرط مسلم 233/2، ووافقه الذہبی، سندہ حسن
13. ایک سورت پڑھیں۔
النسائی 75074/43 ح 1989، وسندہ صحیح
14. پھر تکبیر کہیں اور رفع یدین کریں۔
البخاری: 1334، ومسلم: 952، ابن ابی شیبہ 296/3، 11380، وسندہ صحیح۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما، انہوں کے علاوہ خلود، زہری، قیس بن ابی حازم، نافع بن جبیر اور حسن بصری وغیرہم سے جنازے میں رفع یدین کرنا ثابت ہے۔ دیکھیے الحدیث: 3 (ص 20) اور یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی رائج ہے۔ نیز دیکھیے جنازہ کے مسائل فقرہ: 3
15. نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں۔
عبدالرزاق فی المصنف 490، 489/3 ح 6428 وسندہ صحیح
مثلاً:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
البخاری فی صحیحہ 3370، والترمذی فی السنن الکبری 1382، 2856
16. تکبیر کہیں
البخاری: 1334، مسلم: 952
17.اور رفع یدین کریں۔
ابن ابی شیبہ 296/3، 1380، وسندہ صحیح۔
17. میت کے لیے خالص طور پر دعا کریں۔
عبدالرزاق فی المصنف: 6428 وسندہ صحیح، وابن حبان فی صحیحہ، الموارد: 754، وابو داود: 3199 وسندہ حسن۔
تنبیہ:
اس سے مراد نماز جنازہ کے اندر دعا ہے۔
دیکھیےباب ما جاء فى الدعاء فى الصلوة على الجنازة (ابن ماجہ: 1497)
چند مسنون دعائیں درج ذیل ہیں:
اللَّهُمَّ ٱغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى ٱلْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى ٱلْإِيمَانِ
الترمذی: 1024، وسندہ صحیح، وابو داود: 320
اللَّهُمَّ ٱغْفِرْلَهُ وَٱرْحَمْهُ وَعَافِهِ وَٱعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مَدْخَلَهُ وَٱغْسِلْهُ بِٱلْمَاءِ وَٱلثَّلْجِ وَٱلْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ ٱلْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ ٱلثَّوْبَ ٱلْأَبْيَضَ مِنَ ٱلدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ ٱلْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ ٱلْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ ٱلنَّارِ
مسلم: 963/85، روایة قدیم دار السلام: 2232
اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَأَعِذْهُ مِنْ فِتْنَةِ ٱلْقَبْرِ وَعَذَابِ ٱلنَّارِ وَأَنْتَ أَهْلُ ٱلْوَفَاءِ وَٱلْحَقِّ، اللَّهُمَّ ٱغْفِرْ لَهُ إِنَّكَ أَنْتَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
ابن المنذر فی الاوسط 441/5، 3173 وسندہ صحیح، وابو داود: 3202
اللَّهُمَّ إِنَّهُ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ ، كَانَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلهَ إلَّا أَنْتَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ ، اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِاً فَزِدْ فِي حَسَنَاتِهِ وَإِنْ كَانَ مُسِيأُ فَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِ ، اللَّهُمَّ لَا تحْرِمْنَا أَجْرَةَ وَلَا تَفْتِتَا بَعْدَهُ.
مالک فی الموطأ 1/228، 536 واسنادہ صحیح عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ یا موقوف۔
اللّهُـمَّ إِنِّـي أَعـوذُ بِكَ مِـنْ عَذابِ القَـبْر
مالک فی الموطأ 1/228، 537 واسنادہ صحیح
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ یا موقوف، یہ دعا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا معصوم بچے کی میت پر پڑھتے تھے۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنْهُمْ فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ أَبْقَيْتَهُ مِنْهُمْ فَأَبْقِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ
ابن ابی شیبہ 293/3، 11361، عن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ موقوف وسندہ حسن
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِهَذِهِ النَّفْسِ الْحَنِيفِيَّةِ الْمُسْلِمَةِ وَاجْعَلْهَا مِنَ الَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهَا عَذَابَ الْجَحِيمِ
ابن ابی شیبہ 294/3، 13662 اوسندہ صحیح، وھو موقوف على حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ
18. میت پر کوئی دعا موقت (خاص طور پر مقرر شدہ) نہیں ہے۔
ابن ابی شیبه 1366ح94/3 اوسندہ صحیح، وهو موقوف على حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ
لہذا جو بھی ثابت شدہ دعا کر لیں جائز ہے۔ سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے قول اور تابعین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ میت پر کئی دعائیں جمع کی جا سکتی ہیں۔
ابن ابی شیبہ 295/3، 1370، عن سعید بن المسیب واشعری: 1371 عن محمد بن سیرین وغیرہم من آثار التابعین قالوا: ليس على المیت دعاء موقت (نحو المعنی) وھو صحیح عنهم
19. پھر تکبیر کہیں۔
البخاری: 1334، ومسلم: 952
20. پھر دائیں طرف ایک سلام پھیر دیں۔
عبدالرزاق 489/3 ح 6428 وسندہ صحیح، وحمر فوق، ابن ابی شیبہ 307/3 ح 11491 عن ابن عمر رضی اللہ عنہما من فعله وسندہ صحیح۔
تنبیہ:
نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا کی ایک اور صحابہ سے ثابت نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے احکام الجنائز (ص 127) میں بحوالہ بیہقی (43/4) نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام والی روایت لکھ کر اسے حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔
① حماد بن ابی سلیمان مختلط ہے اور یہ روایت قبل از اختلاط نہیں ہے۔
② حماد بن کور پدیس ہے۔ دیکھیے طبقات المدلسین (2/45) اور روایت معنعن ہے۔ امام عبداللہ بن المبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنازے میں دو سلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے۔ (مسائل ابی داود ص 54 اوسندہ صحیح)