عن كثير بن كثير عن ابيه عن جده قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت سبعا ثم صلى ركعتين بحذائه فى حاشية المقام وليس بينه وبين الطواف احد
سنن نسائی: 759، ضعیف
”حضرت کثیر اپنے والد سے وہ اپنے دادا کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر مقام ابراہیم کے ایک کنارے کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔“
سنن ابی داؤد/الحج 89(2016)، سنن ابن ماجہ/الج 33(2958)، (تحفۃ الاشراف: 11285)، مسند احمد 399/6
تخریج دار الدعوۃ:
اس کے راوی ’کثیر بن المطلب‘ لین الحدیث ہیں، اسی لیے ان کے بیٹے کثیر بن کثیر ان کا نام حذف کر کے کبھی ’عن بعض اہلہ‘ اور کبھی ’عمن سمع جدہ‘ کہا کرتے تھے
تشریح:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ (مسجد حرام) میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، بعض کا موقف بھی یہی ہے کہ مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں سترے کے بارے میں نرمی ہے جس طرح کہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی المصنف میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے: [باب: لا يقطع الصلاۃ بمکۃ شيءالمصنف: 2/35]
پھر اس باب کے تحت جو مرفوع حدیث بیان کی ہے، وہ یہی کثیر بن کثیر عن ابیہ عن جدہ یعنی سنن نسائی والی روایت ہے۔ یہ روایت دوسری کتب سنن میں بھی موجود ہے۔ بیت اللہ میں سترے کی نرمی کے متعلق مرفوعاً یہی روایت بیان کی جاتی ہے، لیکن یہ روایت سند ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس روایت کے ضعف کی طرف بڑے خوبصورت اور نفیس انداز میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجاله موثقون الا انه معلول
”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں مگر یہ حدیث معلول (پوشیدہ علت کی وجہ سے ضعیف) ہے۔“
فتح الباری: 1/745، تحت حدیث: 501
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح الجامع میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے: باب السترة بمكة وغيرها یعنی ”مکہ اور مکہ کے علاوہ دوسری جگہ سترے کا بیان۔“
پھر حضرت ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ابو جہیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء مکہ میں اپنے سامنے نیزہ گاڑ کر ہمیں نماز پڑھائی۔“
صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 501
اسی طرح امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے المصنف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل فرمایا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں (اپنے سامنے لاٹھی گاڑ کر) نماز پڑھی۔
مصنف ابن ابی شیبہ، قد رسم بستر المصلی، حدیث: 2853
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے لیے سترے کا حکم عام ہے، چاہے مکہ، مدینہ یا کوئی اور جگہ ہو۔ بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی ہو یا کوئی اور مسجد، نمازی کے لیے سترہ بہر حال ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصل الا الى سترة
صحیح ابن خزیمہ: 2/10، حدیث: 800
”سترے ہی کی طرف نماز پڑھو۔“
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اثر بھی موجود ہے۔
حدثنا عيسى بن يونس عن الاوزاعي عن يحيى بن ابي كثير قال رأيت انس بن مالك فى المسجد الحرام قد نصب عصا يصلي اليها
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا کہ وہ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز ادا کر رہے تھے۔“
مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوات، باب قدر کم یستر المصلی (2853)
امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ نے تهذيب الآثار، اور امام ابو بکر ابن المنذر رحمہ اللہ نے الاوسط میں روایت کیا ہے۔
دیکھیے: الاوسط من السنن والاجماع حدیث نمبر 2427
مصنف ابن ابی شیبہ کے محقق شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: اسناده صحيح اور علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب حجتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
دیکھیے حجتہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص 22
نیز فرمایا:
اذا صلى احدكم فليصل الى سترة وليدن منها
سنن ابی داؤد، الصلاۃ، حدیث: 695
”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ سترے کی طرف پڑھے اور سترے کے قریب کھڑا ہو۔“
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ نمازی اپنے آگے سے کسی کو گزرنے نہ دے بلکہ گزرنے والے کو روکے۔ اگر کوئی نہ رکے تو اسے زبردستی روکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔ مذکورہ دلائل سے جہاں سترے کا وجوب معلوم ہوتا ہے وہاں بیت اللہ شریف میں لوگوں کے ازدحام اور ان کی کثرت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، لہذا اس کا لحاظ رکھنا بھی مناسب ہے، اس لیے:
﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾
(64-التغابن:16)
”پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔“
ایک سوال اور اس کا جواب
سوال: شیخ ابو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ شیخ میں نے حرم مکہ اور حرم مدینہ میں اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزر رہے ہوتے ہیں کوئی کسی کو روکتا نہیں کیا یہ ٹھیک ہے یا روکنا چاہیے؟
جواب:
الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب واليه المرجع والمآب
نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو جس مسجد میں ہو، اسے روکنا چاہیے۔ ابو جہیم عبد اللہ بن حارث الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه
”اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اس کے لیے چالیس (سال) تک کھڑا رہنا گزرنے سے بہتر ہو گا۔“
صحیح البخاري، كتاب الصلاة، باب اثم المار بين يدي المصلي، ح:510
درج بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت سخت گناہ ہے۔ لہذا کسی بھی حالت میں نمازی اور سترہ کے درمیان سے یا اگر سترہ موجود نہ ہو تو نمازی کے آگے سے نہ گزرا جائے۔ یاد رہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی یہ ممانعت مطلقاً ہے۔ گزرنے والا خواہ کتنے ہی فاصلے سے بھی گزرے، اسے اتنا گناہ ہے جتنا کہ قریب سے گزرنے والے کے لیے ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصل الا الى سترة ولا تدع احدا يمر بين يديك فان ابى فلتقاتله فان معه القرين
”سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دو۔ اگر وہ انکار کر دے تو اس سے لڑو کیونکہ اس کے ساتھ یقیناً شیطان ہے۔“
صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصلاۃ، باب النهی عن الصلاۃ الی غیر سترة (800)، صحیح مسلم (506)
نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو روکنے کا یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کے نمازیوں کو ہی دیا تھا۔ کیونکہ اس کے اولین مخاطب وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد نبوی میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ لہذا مسجد نبوی ہو یا مسجد حرام، یا کوئی اور مسجد، نمازی کو سامنے سے گزرنے والے کو روکنا ہی چاہیے۔
مندرجہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ:
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سترہ نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
● آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ کا اہتمام کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ سترہ سے قریب رہنے کا حکم دیا ہے۔
●صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔
● کسی کو بغیر سترہ کے نماز پڑھتے دیکھتے تو اس کو سترے کے قریب کر دیتے تھے۔
●مسجد حرام و مسجد نبوی میں بھی سترہ کا اہتمام فرماتے تھے۔
●دیوار یا ستون کے پیچھے جگہ نہ ملتی تو لاٹھی وغیرہ گاڑ کر سترہ بنا لیتے تھے۔
● سترہ کی عدم موجودگی میں کسی شخص کو سترہ بنا کر نماز ادا کرتے تھے۔
● عورتوں کو بھی مسجد اور گھر میں سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
وما علينا الا البلاغ
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارا خاتمہ قران و حدیث اور سلف صالحین کی محبت میں کرے اور دنیا و اخرت میں ہر طرح کی رسوائی سے بچائے ۔ امین