عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: يقطع الصلاة المرأة والحمار والكلب ويقي ذلك مثل مؤخرة الرحل
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اور گدھے اور کتے کے سامنے گزر جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور ان سب سے بچاؤ یوں ہو سکتا ہے کہ نمازی کے سامنے کوئی چیز پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر ہو۔“
صحیح مسلم: 511
واضح رہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ:
لا يقطع الصلاة شيء
”نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔“ وہ ضعیف ہے لہذا قابل حجت نہیں۔
سنن ابوداؤد: 720 ضعیف، ضعیف الجامع: 6366
اگر گذشتہ اشیاء کے علاوہ کوئی آدمی وغیرہ نمازی کے سامنے سے گزر جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی کیونکہ اس کے مبطل ہونے کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں جیسا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ثابت کیا ہے۔
الفتاوی الاسلامیۃ: 243/1-244
امام بخاری رحمہ اللہ نے علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا: کتا، گدھا اور عورت۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”تم نے ہمیں کتوں کے برابر بنا دیا۔“
صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 511
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود سوال کیا کہ نماز کو کون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے جواب دیا: عورت اور گدھا۔
صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 142(512)
ایک روایت میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عورت، گدھا اور کتا نماز کو قطع کر دیتا ہے۔“
ایک روایت میں سیاہ کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قرار دیا ہے۔
صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 1137(510)
صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی روایت مروی ہے لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 1139(511)
سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔
سنن ابی داؤد، الصلاۃ، حدیث: 703
ان روایات میں نماز کو توڑ دینے سے مراد نماز کا باطل ہو جانا اور نماز کا دوبارہ دہرایا جانا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی بہ مراد لی ہے اور بعض حضرات ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے، اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت، گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے۔ اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے، اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً: کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللهم إني أعوذ بك کہو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔
بہر حال یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا۔ اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تعاد الصلاة من ممر الحمار والمرأة والكلب الاسود سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، رقم: 3323 ”گدھے اور عورت اور کالے کتے کے گزرنے سے نماز لوٹائی جائے گی۔“ کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم)
ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری، شیخ الحدیث حافظ عبدالستار الحماد، ج1، ص: 838