پانچ وقت کی نماز کی رکعات، سنن اور نوافل: صحیح احادیث کے دلائل کے ساتھ مکمل رہنمائی
سوال:
محترم حافظ صاحب! ایک دیوبندی بھائی نے ہم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں پانچ وقت کی نمازوں کی رکعات کی تعداد صحیح احادیث سے دلائل کے ساتھ بتائی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بات ہمیں صحیح احادیث سے ثابت مل جائے تو ہم مان لیں گے کہ اہل حدیث کا مسلک ہی درست ہے۔ ان کے مطابق فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں سے ہی یہ رکعات متعین ہوئیں اور پڑھی جاتی ہیں (جن میں عشاء کی 17 رکعات بھی شامل ہیں)۔
لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اور مکمل تخریج کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔ براہ کرم صرف حدیث نمبر پر اکتفا نہ کریں بلکہ مکمل حوالہ لکھیں۔ نیز نفلی رکعات کی تعداد بھی بیان کریں۔
(خالد اقبال سوھدری، وزیرآباد)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ”
"پھر اُنہیں بتا دو کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اُن پر اُن کے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔”
(صحیح البخاری ج2 ص1096، کتاب التوحید، باب نمبر1، ح7372، صحیح مسلم ج1 ص37، ح19، ترقیم دارالسلام: 121، کتاب الایمان، باب الدعاء الی الشہادتین و شرائع الاسلام)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"كَانَ أَوَّلَ مَا افْتُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةُ : رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ ، إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهَا كَانَتْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَمَّ اللهُ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْعِشَاءَ الْآخِرَةَ أَرْبَعًا فِي الْحَضَرِ ، وَأَقَرَّ الصَّلَاةَ عَلَى فَرْضِهَا الْأَوَّلِ فِي السَّفَرِ”
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی نماز فرض ہوئی وہ دو، دو رکعتیں تھیں، سوائے مغرب کے، وہ تین رکعتیں تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضر (یعنی اپنے علاقے میں) ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں چار رکعتیں مقرر کر دیں اور سفر میں ان نمازوں کو پہلی حالت (یعنی دو رکعتوں) پر قائم رکھا۔”
(مسند احمد، ج6، ص272، ح26338، وسندہ حسن لذاتہ)
ان احادیث سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
◈ نماز فجر: 2 رکعت فرض
◈ نماز ظہر: حضر میں 4 رکعت فرض، سفر میں 2 رکعت
◈ نماز عصر: حضر میں 4 رکعت فرض، سفر میں 2 رکعت
◈ نماز مغرب: 3 رکعت فرض
◈ نماز عشاء: حضر میں 4 رکعت فرض، سفر میں 2 رکعت
یہ رکعات صحیح حدیث سے ثابت ہیں اور ان پر امت مسلمہ کا اجماع بھی ہے۔
(مراتب الاجماع لابن حزم، ص24-25 اور توضیح الاحکام، ج1، ص408)
فقہ حنفی سے متعلق دعویٰ کا رد:
دیوبندی کا یہ دعویٰ کہ "ہمارے پاس فقہ حنفی میں نماز پنجگانہ کی رکعات کی تعداد موجود ہے” غلط ہے۔ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہاد کا نام ہے، جبکہ ان کی کوئی کتاب حنفیوں کے پاس موجود نہیں۔ امام ابو یوسف اور محمد بن الحسن الشیبانی، جن کے ذریعے یہ فقہ منقول ہے، جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح تھے، اس لیے ان سے بھی دیوبندی اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکتے۔
قدوری، سرخسی، ملا مرغینانی جیسے افراد امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کئی سال بعد پیدا ہوئے۔ ان کے حوالوں کو "فقہ حنفی” کہنا غلط ہے۔
دیوبندیوں سے مطالبہ:
ہم دیوبندی بھائی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ سچے ہیں تو صحیح سند کے ساتھ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے درج ذیل امور ثابت کریں:
➊ نماز پنجگانہ کے فرائض کی تعداد
➋ سنن کی تعداد
➌ نوافل
➍ عشاء کی 17 رکعتیں
اگر وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے تو اہل حدیث (یعنی اہل سنت) پر جھوٹا پروپیگنڈا بند کریں۔
سنتوں کی تفصیل:
➊ فجر سے پہلے: 2 رکعت سنت
(صحیح بخاری، ج1، ص157، ح1180، ابواب التطوع، باب الرکعتین قبل الظہر)
➋ ظہر سے پہلے: 2 رکعت سنت
(صحیح بخاری، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا)
➌ ظہر کے بعد: 2 رکعت سنت
(صحیح بخاری، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا)
➍ ظہر سے پہلے 4 رکعتیں بھی ثابت ہیں
(صحیح بخاری، ج1، ص157، ح1182، ابواب التطوع، باب الرکعتین قبل الظہر)
➎ عصر سے پہلے: 2 رکعت سنت
(سنن ابی داود، ح1272، وسندہ حسن)
➏ عصر سے پہلے 4 رکعتوں کی فضیلت بھی
(سنن الترمذی، کتاب الصلوٰۃ، باب ما جاء فی الاربع قبل العصر، ح430، وسندہ حسن)
➐ مغرب کے بعد: 2 رکعت سنت
(صحیح بخاری، ج1، ص128، ح937، کتاب الجمعہ، باب الصلوٰۃ بعد الجمعہ و قبلھا)
➑ عشاء کے بعد: 2 رکعت سنت
(صحیح بخاری، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا)
نوافل کی مشروعیت:
"إِلا أَنْ تَطَّوَّعَ”
"سوائے اس کے جو تم نفل پڑھو۔”
(صحیح بخاری، ج1، ص12، ح46، کتاب الایمان، باب الزکوٰۃ من الاسلام)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفل نمازیں جتنی چاہیں دو دو رکعت کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔
حتمی بات:
دیوبندی بھائی کو کہا جائے کہ ہم نے ان کے سوال کا جواب صحیح حدیث اور اجماع کے دلائل کے ساتھ دے دیا ہے۔ اب انہیں چاہئے کہ اہل حدیث کا مسلک قبول کر لیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو اپنے دعوے کے مطابق صحیح سند کے ساتھ درج بالا امور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت کریں۔ ورنہ بےسند اور ضعیف کتب جیسے قدوری، مبسوط، ہدایہ اور فتاویٰ شامی وغیرہ سے استدلال کرنا چھوڑ دیں۔
دیوبندی اور بریلوی حضرات کا یہ کہنا کہ "ہماری نماز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہے” سراسر جھوٹ ہے۔ کیا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا:
◈ اے بریلویو! اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھو، اور
◈ اے دیوبندیو! تم نہ پڑھو،
◈ اے بریلویو! جنازے کے بعد دعا کرو، اور
◈ اے دیوبندیو! تم دعا نہ کرو،
◈ اے دیوبندیو! "ولا الضالین” ظاء سے پڑھو، اور
◈ اے بریلویو! "ولا الضالین” دال سے پڑھو؟
اگر صحیح متصل سند موجود ہے تو پیش کریں، ورنہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی خودساختہ باتوں میں نہ گھسیٹیں۔ یاد رکھیں کہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے، اس دن آپ کیا جواب دیں گے؟
(وما علینا الا البلاغ)
(30 مئی /2010ء)
ھذا ما عندی، والله أعلم بالصواب