رسول اللہ ﷺ اور غیب کی خبریں: علمائے اہل سنت کا موقف
سوال:
رسول اللہ ﷺ کو دی گئی غیبی خبریں اور علمِ غیب سے متعلق علمائے اہل سنت کا کیا مؤقف ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنِ کریم سے دلائل
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ﴾
’’کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے، الغیب نہیں جانتا مگر اللہ جانتا ہے۔‘‘
(النمل:65)
امام ابن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر:
اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد ﷺ سے فرماتا ہے کہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والے مشرکین سے کہہ دو کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے، اور مخلوق میں سے کوئی اسے نہیں جانتا۔
(تفسیر طبری، جلد 20، صفحہ 5)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول
"وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ”
’’جس نے دعویٰ کیا کہ محمد ﷺ جانتے تھے کہ کل کیا ہوگا تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔‘‘
(کتاب التوحید لابن خزیمہ ص223، حدیث 324، صحیح المستخرج لأبی نعیم الاصبہانی 1/242، حدیث 442، صحیح ابی عوانہ ج1ص 154، حدیث 304)
علم غیب کی کنجیوں سے متعلق حدیث
نبی کریم ﷺ کا ارشاد:
عن ابن عمر – رضي الله عنهما – عن النبي ﷺ أنه قال:
(مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله…)
’’غیب کی پانچ چابیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا:
◈ رحم میں کیا ہے
◈ کل کیا ہوگا
◈ بارش کب آئے گی
◈ کس زمین پر کس کی موت ہوگی
◈ قیامت کب آئے گی‘‘
(صحیح بخاری: 4697)
نبی کریم ﷺ کو دی گئی چیزوں کی وضاحت
أُوتِيتُ مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا الْخَمْسَ
’’مجھے ہر چیز کی چابیاں دی گئیں سوائے ان پانچ کے۔‘‘
(مسند احمد 2/85، حدیث 5579، سند صحیح، المعجم الکبیر للطبرانی 12/360۔361، حدیث 13344)
وضاحت:
➊ پانچ چیزوں کی چابیاں نبی کریم ﷺ کو نہیں دی گئیں۔
➋ ان کے علاوہ دیگر اشیاء کی چابیاں آپ ﷺ کو عطا کی گئیں۔
اقوالِ صحابہ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
أُوتِيَ نَبِيّكُمْ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاتِيح كُلّ شَيْء غَيْر خَمْس
(مسند احمد 1/386، سند حسن، مسند الحمیدی: 125، ابن کثیر: ’’وھذا اسناد حسن‘‘)
قرآن سے مزید دلائل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد:
﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ﴾
(الاعراف: 188)
ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر:
اگر میں وہ جانتا جو ہونے والا ہے تو میں بہت سی خیر اکھٹی کر لیتا۔
(تفسیر طبری 5/590)
انبیاء علیہم السلام اور غیب کی بعض خبریں
سورۃ الجن (آیت: 26-27) کی تفسیر کے حوالے:
- امام ابن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ: "فَإِنَّهُ يُظْهِرهُ عَلَى مَا شَاءَ مِنْ ذَلِكَ” (تفسیر طبری، جلد 29، صفحہ 76)
- امام قتادہ رحمۃ اللہ علیہ: "فَإِنَّهُ يُظْهِرُهُ مِنَ الغَيْبِ عَلَى مَا شَاءَ” (تفسیر ابن جریر، 29/77)
- امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ: "فيطلعه على بعض الغيب” (تفسیر بغوی ج1 ص378)
- امام الواحدی النیسابوری رحمۃ اللہ علیہ: "أطلعه على ما شاء من غيبه” (الوسیط فی تفسیر القرآن المجید 4/369)
- قاضی ابن العربی المالکی: "وَأَنَّ اللهَ يُطْلِعُهُ عَلَى مَا شَاءَ مِنْ غَيْبِهِ” (احکام القرآن 2/1033)
- امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ: "يظهره على ما يشاء من غيبه” (تفسیر قرطبی 19/27۔28)
- امام ابوحیان رحمۃ اللہ علیہ: "فَإِنَّهُ يُظْهِرُهُ عَلَى مَا يَشَاءُ” (البحر المحیط ج8 ص348)
- حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ: "وَمِنْهُمْ مَنْ أَطْلَعَهُ عَلَى مَا شَاءَ مِنْ غَيْبِهِ” (مجموع فتاویٰ 28/605)
- حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ: "فَإِنَّهُ يُطْلِعُهُمْ عَلَى مَا يَشَاءُ مِنْ غَيْبِهِ” (زاد المعاد ج3 ص220)
- حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ: "فَإِنَّهُ يَقْتَضِي إِطْلَاعَ الرَّسُولِ عَلَى بَعْضِ الْغَيْبِ” (فتح الباری 8/514)
اہل سنت والجماعت کا خلاصہ عقیدہ
➊ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے اور اس صفت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
➋ جميع ماكان وجميع مايكون کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
➌ پانچ امور کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (سورہ لقمان آیت:34)۔
➍ انبیاء علیہم السلام کو بعض غیبی امور کی اطلاع وحی کے ذریعے ملی ہے۔
دیگر مکاتب فکر کے نظریات کا جائزہ
بریلویہ/رضاخانیہ کا عقیدہ:
◈ رسول اللہ ﷺ تکمیل قرآن کے بعد جميع ماكان وجميع مايكون کا علم جانتے ہیں (باذن اللہ)۔
◈ رد: اس عقیدہ کی کوئی صریح دلیل قرآن، حدیث، اجماع یا آثار سے نہیں ملتی۔
بعض جدید متکلمین کا عقیدہ:
◈ اگر غیب اللہ کی اطلاع سے معلوم ہو تو وہ "غیب” نہیں ہوتا، لہٰذا نبی کریم ﷺ غیب نہیں جانتے تھے۔
◈ بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ ﷺ کو ’’ذرا برابر بھی غیب‘‘ معلوم نہ تھا۔
◈ رد: یہ نظریہ قرآن و حدیث کے برخلاف اور سراسر گمراہی ہے۔
آل دیوبند کے بعض اقوال:
◈ شیطان و ملک الموت کی علم کی وسعت کو نص سے ثابت مانا گیا، لیکن نبی کریم ﷺ کی نہیں۔
◈ نبی کریم ﷺ کے علم کا شیطان سے مقابلہ کیا گیا۔
◈ جمیع حیوانات، بہائم، بچوں اور مجنونوں کو علم غیب سے مشابہ قرار دیا۔
◈ رد: یہ تمام اقوال باطل اور گستاخی پر مبنی ہیں۔
اہل حدیث (اہل سنت والجماعت) کا متوازن موقف
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بعض غیبی امور کی اطلاع دی، وہ آپ جانتے تھے۔
اور جو اطلاع نہیں دی گئی، آپ اسے نہیں جانتے تھے۔
حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ:
أنه ﷺ لا يعلم الغيب وإنما يعلم منه ما يظهره الله عليه
(التمہید، ج6 ص251)
ابوالولید الباجی رحمۃ اللہ علیہ:
سوى ما أوحي إليه
(المنتقیٰ شرح الموطا 7/129)
وفاتِ نبوی ﷺ کے بعد "اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں” کہنا؟
◈ صحابہ رضی اللہ عنہم وفات کے بعد صرف "اللہ اعلم” کہا کرتے تھے۔
◈ صحیح بخاری (ح4538) کی روایت سے یہ واضح ہوتا ہے۔
◈ "الله ورسوله أعلم” کہنا وفات کے بعد درست نہیں۔
بطور فائدہ
◈ نبی کریم ﷺ مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔
◈ صحابہ کرام کا عام قول تھا: "الله ورسوله أعلم”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطا امام مالک)
لیکن یہ قول وفات سے پہلے کے سیاق میں ہے۔
خلاصہ:
◈ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔
◈ نبیوں اور رسولوں کو بعض غیب کی خبریں دی گئیں۔
◈ پانچ امور کا علم صرف اللہ کو ہے۔
◈ غیب کی کلی اطلاع نبی کریم ﷺ کو حاصل نہیں تھی۔