کیا انبیاء قبروں میں نماز پڑھتے ہیں؟ حدیث کی تحقیق
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 3 – توحید و سنت کے مسائل، صفحہ 18

کیا انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں؟

سوال:

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون”
یعنی انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ تفصیل سے مدلل جواب دیں۔
کیا امام بیہقی، امام سبکی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام ہیثمی اور امام سیوطی رحمہم اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے؟
(سوال از قاری محمد اسماعیل سلفی، جھنگ)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کی اصل روایت:

یہ روایت "الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون”
مسند ابی یعلیٰ الموصلی (جلد 6، صفحہ 147، حدیث 3425)
اور حیاۃ الانبیاء علیہم السلام للبیہقی (حدیث 2، طریق ابی یعلیٰ)
میں مندرجہ ذیل سند کے ساتھ مروی ہے:

"عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ”

سند کا تجزیہ:

◈ اس سند میں حجاج نامی راوی غیر منسوب (نامکمل تعارف والا) ہے۔
◈ اس کی ولدیت یا نسب معلوم نہیں۔
حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"نكرة: ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه…..”
(میزان الاعتدال، رقم: 4601، ترجمہ: 1727)

یعنی:
یہ راوی مجہول (نامعلوم) ہے، اور حافظ ذہبی کے علم کے مطابق اس سے صرف مستلم بن سعید نے ہی روایت کی ہے، اور وہ اس سے منکر (غیر معروف) خبر بیان کرتا ہے۔

حجاج کو "ابن ابی زیاد الاسود البصری” کہنا کیوں غلط ہے؟

➊ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:

◈ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ، جنہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق
"من اهل الاستقراء التام في نقد الرجال”
(نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر، مع شرح الملاعلی قاری، صفحہ 736)
کہا گیا ہے، وہ حجاج بن ابی زیاد الاسود القسملی کو اچھی طرح جانتے تھے۔

◈ انہوں نے سیر اعلام النبلاء، صفحہ 767 میں فرمایا:

"بصري صدوق…….وكان من الصلحاء وثقه ابن معين مات سنة بضع وأربعين ومئة”

لہٰذا حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک:
◈ ایک "حجاج بن ابی زیاد” ہے، جو بصری، صدوق اور ثقہ ہے۔
◈ اور دوسرا "حجاج” مجہول ہے۔

➋ روایت میں "ابن الاسود” کی صراحت موجود نہیں:

مستلم بن سعید کی روایت میں "حجاج” کے ساتھ "ابن الاسود” کی صراحت کسی صحیح سند سے ثابت نہیں۔
حسن بن قتیبہ المدائنی کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے، لیکن وہ:
متروک، مجروح اور ضعیف ہے۔
• اس کی روایت مردود و باطل ہے۔

یہ روایت درج ذیل کتب میں ملتی ہے:
مسند البزار
الفوائد لتمام الرازی
الکامل لابن عدی
حیاۃ الانبیاء علیہم السلام للبیہقی
تاریخ دمشق لابن عساکر
(دیکھئے: الصحیحہ للبانی، جلد 2، صفحہ 187، حدیث 621)

➌ تہذیب الکمال میں مذکور ذکر قابل حجت نہیں:

◈ اگرچہ تہذیب الکمال میں "مستلم بن سعید” کے شیوخ میں "حجاج بن ابی زیاد الاسود” کا ذکر ہے،
◈ لیکن حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کی موجودگی میں یہ قابل حجت نہیں۔

لہٰذا جو لوگ "حجاج” کو ابن الاسود ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں، انہیں اس کا صحیح سند سے ثبوت دینا ہوگا۔

اضافی فائدہ:

روایت "المستلم بن سعيد، عن الحجاج، عن ثابت”
اخبار اصفہان لابی نعیم الاصبہانی (جلد 2، صفحہ 83) میں بھی موجود ہے،
لیکن:
◈ اس کی سند ضعیف ہے۔
◈ اور اس میں "أحياء” کا لفظ موجود نہیں۔

خلاصہ:

◈ یہ عجیب و غریب روایت سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
◈ لہٰذا محمد عباس رضوی بریلوی کی کتاب "واللہ آپ زندہ ہیں” میں اس پر لمبی بحث بے فائدہ ہے۔

کیا امام بیہقی، سبکی، ابن حجر، ہیثمی، سیوطی نے اسے صحیح کہا؟

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا اس روایت کو صحیح کہنا ان کی کتاب سے ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس روایت کی صحت کی نسبت منقطع و بے سند ہے۔
امام سبکی کا مقام حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلے میں نہیں ہے۔
امام ہیثمی نے اگرچہ بعض راویوں کو ثقہ کہا، لیکن حجاج مجہول ہونے کی وجہ سے ان کی تصحیح غلط ہے۔
امام سیوطی متاخرین میں سے ہیں اور ان کی توثیق بھی اس روایت کو صحیح قرار دینے کے لیے کافی نہیں۔

اصولی بات:

◈ یہ روایت اصول حدیث اور اسماء الرجال کے اعتبار سے صحیح نہیں۔
◈ اس کے تمام شواہد بھی ضعیف اور مردود ہیں۔

صحیح مسلم کی ایک مستند روایت:

اس باب میں صرف صحیح مسلم کی وہ حدیث مستند ہے جس میں آیا ہے کہ:
> رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات) موسیٰ علیہ السلام کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
یہ ایک خاص معجزہ ہے اور اسے عموم پر قیاس کرنا درست نہیں۔

مزید مطالعہ:

انبیائے کرام علیہم السلام کی برزخی زندگی (حیاۃ الانبیاء علیہم السلام) کے لیے دیکھیے:
"تحقیقی مقالات” جلد 1، صفحہ 19-26

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے