تہتر فرقے اور اُمت اجابت – حدیث کی وضاحت
سوال:
محترم حافظ صاحب! براہِ کرم درج ذیل حدیث کی وضاحت فرمائیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔”
(مشکوٰۃ:172)
اس حدیث میں جو "فرقے” بیان کیے گئے ہیں، کیا ان سے مسلمانوں کے فرقے مراد ہیں یا اس میں یہود و نصاریٰ بھی شامل ہیں؟ ہمارے حلقے میں اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ حدیث میں مسلمانوں کے فرقے مراد ہیں، جبکہ بعض کہتے ہیں کہ یہاں تمام اقوام جیسے یہود، نصاریٰ، ہندو، بت پرست، آتش پرست وغیرہ شامل ہیں۔
براہِ کرم محدثین اور شارحین کے اقوال کی روشنی میں تفصیلی جواب تحریر فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
اسلامی شریعت کی روشنی میں "امت” کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں:
1. اُمت دعوت
◈ یہ تمام غیر مسلم اقوام پر مشتمل ہے، جیسے:
◈ یہود و نصاریٰ
◈ ہندو
◈ آتش پرست
◈ قادیانی مرزائی وغیرہ
◈ ان سب پر لازم ہے کہ دینِ اسلام کو قبول کریں اور کفر و شرک کو ترک کریں۔
2. اُمت اجابت
◈ وہ افراد جو کلمہ پڑھ کر دینِ اسلام قبول کر چکے ہوں یا اس کا دعویٰ رکھتے ہوں۔
◈ شرط یہ ہے کہ وہ دینِ اسلام کی بنیادی ضروریات کا انکار نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں کافر یا مرتد قرار دیا جائے گا۔
◈ مثلاً مرجیہ، شیعہ، خوارج اور مختلف بدعتی گروہ۔
◈ نوٹ: قادیانی، مرزائی اور بہائی جیسے فرقے اُمتِ اجابت سے خارج ہیں۔
حدیث کی مراد:
حدیث میں جس "اُمت” کا ذکر ہے، اس سے مراد اُمتِ اجابت یعنی اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس بات کی تصریح شارحینِ حدیث اور دیگر علمائے کرام نے واضح انداز میں فرمائی ہے۔
ذیل میں دس معتبر حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ حدیث میں مراد صرف اُمتِ اجابت ہے:
حدیث کی شرح و تفسیر کے دلائل:
➊ جامع ترمذی (بتبویب قبل حدیث 2640)
باب: "ما جاء في افتراق هذه الأمة”
یعنی: اس اُمت کے فرقوں کے بارے میں جو باب وارد ہوا ہے۔
➋ معالم السنن للخطابی (جلد 4، صفحہ 295، کتاب شرح السنہ)
➌ عارضۃ الأحوذی (جلد 10، صفحہ 108-109، حدیث 2640 کے تحت اشارہ)
➍ الکاشف عن حقائق السنن (یعنی شرح الطیبی عن مشکاۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 368، حدیث 171)
➎ فیض القدیر للمناوی الصوفی (جلد 2، صفحہ 26، ت 1223)
➏ حاشیۃ السندھی علی سنن ابن ماجہ (جلد 2، صفحہ 479، حدیث 3991)
➐ تحفۃ الأحوذی (جلد 3، صفحہ 367، حدیث 2640)
عبارت: "المراد من ‘أمتي’ الإجابة”
ترجمہ: "اُمتی” سے مراد اُمتِ اجابت ہے۔
➑ مرعاۃ المفاتیح (جلد 1، صفحہ 270، حدیث 171)
➒ إنجاز الحاجہ شرح سنن ابن ماجہ (جلد 11، صفحہ 397، حدیث 3991)
➓ علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ اس حدیث میں مراد صرف اُمت مسلمہ کے فرقے ہیں، جیسے:
◈ خوارج
◈ شیعہ
◈ مرجیہ وغیرہ
اس کے لیے ملاحظہ ہو:
◈ الفرق فی الفرق از عبد القاہر البغدادی
◈ غنیۃ الطالبین از عبد القادر جیلانی
◈ وغیرہ
نتیجہ:
مذکورہ تمام حوالہ جات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس حدیث میں "امت” سے مراد صرف اُمت مسلمہ کے وہ فرقے ہیں جو اسلام کی طرف منسوب ہیں۔
یہود و نصاریٰ یا دیگر کفار و مرتدین اس حدیث کا حصہ نہیں ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب