احمد ممتاز دیوبندی کے اعتراضات کا تفصیلی اور مدلل جواب
اعتراض نمبر 1: "احناف کو ‘آل تقلید’ کہنا”
اصل اعتراض:
جناب علی زئی صاحب نے فرمایا ہے کہ احناف (دیوبندی و بریلوی) کو آل تقلید کہنا درست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اجتہاد پر عمل نہیں کرتے بلکہ اپنے اکابر کے اقوال کو کتاب و سنت پر ترجیح دیتے ہیں۔
جواب:
1. "آل تقلید” کا اطلاق:
◈ علی زئی صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے "احناف” کو نہیں بلکہ "تقلیدیوں”، "دیوبندیوں” اور "بریلویوں” کو "آل تقلید” کہا ہے، اور یہ صحیح ہے کیونکہ یہ لوگ غیر مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں، نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصل اجتہادات کی۔
2. دیوبندی و بریلوی حضرات کی تقلید:
◈ یہ حضرات امام ابو حنیفہ کے اجتہادات پر نہیں بلکہ اپنے بعد والے اکابرین کے اقوال پر عمل کرتے ہیں۔
◈ مثلاً: امام ابو حنیفہ نے جورابین پر مسح کے قائل نہیں تھے، بعد میں رجوع کیا، لیکن دیوبندی حضرات آج بھی اپنے اکابر کی پیروی میں اس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ (الہدایہ، اولین، ص 61، باب المسح علی الحفین)
3. اہل حدیث کا طرزِ عمل:
◈ اہل حدیث علمائے سلف کے فہم اور کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں، عوام علمائے کرام سے مسائل پوچھتے ہیں، یہ "رجوع الی العالم” ہے نہ کہ تقلید۔
◈ اجتہاد ہر دور میں حسب استطاعت جاری رہتا ہے، چاہے عالم کرے یا عامی۔
اعتراض نمبر 2: "بیس رکعت تراویح کے سنت ہونے کے ثبوت میں صحیح حدیث کہاں ہے؟”
اصل اعتراض:
احمد ممتاز دیوبندی نے کہا ہے کہ تراویح کے سنت ہونے کو ثابت کرنے کے لیے صحیح حدیث ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ حدیث پیش کی جائے۔
جواب:
1. اہل حدیث کا موقف:
◈ اہل حدیث اس بات پر قائم ہیں کہ بیس رکعت تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے پر کوئی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں۔
◈ سنت ثابت کرنے کے لیے صحیح حدیث ضروری ہے، چاہے وہ مرفوع ہو یا موقوف یا اثر ہو۔
2. صحیح احادیث سے ثابت رکعتیں:
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے 8 رکعت باجماعت تراویح ثابت ہیں۔ (صحیح ابن خزیمہ: 1070، ابن حبان: 2401)
◈ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے 11 رکعتوں کا حکم ثابت ہے۔ (موطا امام مالک: 249)
3. تعاملِ مدینہ:
◈ مدینہ میں کبھی 36 رکعتیں بھی پڑھی گئی ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7688)
◈ تراویح کی تعداد کے معاملے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری ج 11، ص 126)
اعتراض نمبر 3: "امام ترمذی نے بیس رکعت پر صحابہ و علما کا اجماع نقل کیا ہے”
اصل اعتراض:
ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اکثر اہل علم علی، عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ سے بیس رکعت پر عمل کرتے تھے۔ کیا اس نقل کو صحیح مانا جائے یا نہیں؟
جواب:
1. امام ترمذی کا قول:
◈ یہ قول بغیر سند کے ہے، اور ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو مرفوع یا متصل روایت کے طور پر پیش نہیں کیا، لہٰذا حجت نہیں۔
2. دیگر اقوال:
◈ اگر بے سند اقوال حجت ہیں تو امام مالک کا قول بھی حجت ماننا ہوگا جنہوں نے گیارہ رکعتیں پڑھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کہا۔ (کتاب التہجد، ص 176)
3. اختلاف کی موجودگی:
◈ عینی حنفی نے بھی اس مسئلے میں اختلاف تسلیم کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج11، ص 126)
◈ لہٰذا اجماع کا دعویٰ درست نہیں۔
اعتراض نمبر 4: "سلف میں بیس رکعت کے ثبوت پر مرسل احادیث کا احتجاج”
اصل اعتراض:
احمد ممتاز دیوبندی کا دعویٰ ہے کہ خیر القرون کے زمانے میں مرسل حدیث پر اجماع تھا اور وہ حجت تھی۔
جواب:
1. مرسل حدیث پر اجماع نہیں:
◈ امام یحییٰ بن سعید القطان، امام شعبہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ، عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ، سب نے مرسل حدیث کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ (کتاب المراسیل، ص3، صحیح مسلم: 21)
2. بے سند اقوال مردود:
◈ سیوطی، قاسم بن قطلوبغا، نووی وغیرہ کے اقوال بے سند ہیں اور صحیح روایات کے خلاف ہیں، لہٰذا مردود ہیں۔
3. سلف کا طرزِ عمل:
◈ سلف میں اگر کسی مرسل روایت کو حجت مانا بھی گیا تو وہ مخصوص تقویت کے ساتھ ہوتا، نہ کہ مطلق۔
4. بیس رکعت پر مرسل روایات:
◈ سائب بن یزید، یحییٰ بن سعید، شیر بن شکل، عبدالعزیز بن رفیع، یہ سب روایات مرسل یا منقطع ہیں اور کسی بھی صورت میں سنت مؤکدہ (نہ کم نہ زیادہ) کے ثبوت کے لیے کافی نہیں۔
اعتراض نمبر 5: "اجماع کا دعویٰ”
اصل اعتراض:
احمد ممتاز دیوبندی اور دیگر علماء کا دعویٰ ہے کہ بیس رکعت تراویح پر اجماع ہے۔
جواب:
1. اجماع کا باطل ہونا:
◈ امام ترمذی، عینی حنفی، سیوطی، قرطبی، ابن العربی وغیرہ سب نے اختلاف کی تصریح کی ہے۔
◈ اجماع کا دعویٰ اس وقت درست ہوتا جب کسی بھی صحابی، تابعی، تبع تابعی سے اس کی مخالفت ثابت نہ ہو، جبکہ بیس، گیارہ، آٹھ، اکتالیس، چھتیس رکعتیں سب مختلف روایتوں سے ثابت ہیں۔
2. ابن قدامہ کا اجماع کا دعویٰ:
◈ ابن قدامہ نے بیس رکعت کو اجماع کی طرح کہا ہے، لیکن وہی ابن قدامہ دوسرے مقامات پر جرابوں پر مسح کے بارے میں بھی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں جسے دیوبندی حضرات نہیں مانتے۔
3. ابن حجر مکی اور قسطلانی کے اقوال:
◈ ابن حجر مکی بدعتی شخص ہے اور اس کی ثقاہت ثابت نہیں۔
◈ قسطلانی کا قول بھی بے حوالہ اور غیر صریح ہے، اور بیس رکعت کی وضاحت نہیں کرتا۔
اعتراض نمبر 6: "تقلید اور مراتبِ سنت و فرض کے لئے درکار دلائل”
اصل اعتراض:
دیوبندی حضرات نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح فرض کے لئے قوی دلیل درکار ہے، اسی طرح سنت کے لئے بھی وضاحت دی جائے کہ کس طرح کی حدیث سے سنت ثابت ہوتی ہے۔
جواب:
1. فرض، سنت، مستحب کے درجات:
◈ فرض کے لئے قطعی الثبوت دلیل (قرآن یا متواتر حدیث) چاہیے۔
◈ سنت و مستحب کے لئے صحیح مرفوع حدیث یا خلفائے راشدین سے ثابت صحیح اثر کافی ہے۔
◈ ضعیف و مرسل روایات سنت مؤکدہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
اعتراض نمبر 7: "صحابہ سے بیس رکعت کا صحیح ثبوت”
اصل اعتراض:
دیوبندی حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت علی، حضرت عمر، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے بیس رکعت تراویح ثابت ہے۔
جواب:
1. حضرت علی رضی اللہ عنہ:
◈ ان سے بیس رکعت کا حکم ایک منقطع روایت سے مروی ہے۔ (آثار السنن، ص 253)
◈ عبدالعزیز بن رفیع نے ابی بن کعب کو نہیں پایا، اس لیے یہ روایت بھی منقطع ہے۔
2. ابن ابی ملیکہ کا عمل:
◈ تابعی کا عمل سنت مؤکدہ نہیں بن سکتا جب تک وہ یہ نہ کہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے سنت کے طور پر ثابت ہے۔
اعتراض نمبر 8: "قراءت سبعہ اور تراویح کے ثبوت میں فرق”
اصل اعتراض:
اگر قرآن کی سات قراءتیں تعامل و تواتر سے ثابت ہیں تو تراویح کے بیس رکعتیں بھی تعامل سے کیوں ثابت نہیں؟
جواب:
1. قراءت سبعہ:
◈ یہ متواتر سند سے ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
◈ یہ عقائد و عبادات کا حصہ ہے۔
2. تراویح کی تعداد:
◈ اس پر زبردست اختلاف ہے، کوئی تعامل و تواتر نہیں۔
◈ اجماع اور متواتر دلیل کا دعویٰ باطل ہے۔
اعتراض نمبر 9: "ظہر کی چار رکعتوں کی فرضیت کا ثبوت”
اصل اعتراض:
اگر سنت مؤکدہ کے لئے صحیح حدیث کا مطالبہ ہے تو ظہر کے چار فرضوں کا ثبوت بھی کئی صحیح احادیث سے ہونا چاہیے۔
جواب:
1. ظہر کی چار فرض رکعتوں کا ثبوت:
◈ صحیح مسلم کی روایت موجود ہے: "فرض اللہ الصلوۃ علی لسان نبیکم فی الحضر اربعا” (صحیح مسلم: 687)
◈ اجماع بھی اس پر قائم ہے، لہٰذا صرف ایک صحیح حدیث بھی کافی ہے۔
2. تراویح پر اجماع موجود نہیں:
◈ نہ ہی اس پر صحیح متصل حدیث ہے کہ بیس رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔
اعتراض نمبر 10: "مرسل حدیث کا حجت ہونا”
اصل اعتراض:
مرسل حدیث کو سلف صالحین اور خیر القرون کے لوگوں نے حجت مانا، تو اسے مسترد کیوں کیا جائے؟
جواب:
1. خیر القرون میں بھی اختلاف موجود تھا:
◈ ابن عباس، یحییٰ القطان، شعبہ، عمر بن عبدالعزیز، امام ابو حنیفہ، سب نے مرسل کو حجت نہ مانا۔
2. دعویٰ اجماع باطل:
◈ ابن جریر کی طرف منسوب قول کی کوئی سند نہیں۔
◈ سرفراز خان صفدر بھی مرسل احادیث کی مخالفت کرتے ہیں جہاں وہ ان کے موقف کے خلاف ہو۔
نتیجہ اور خلاصہ:
اہل حدیث کا موقف مدلل، متوازن اور قرآنی و حدیثی دلائل پر مبنی ہے۔ بیس رکعت تراویح پر:
◈ کوئی ایک صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں۔
◈ خلفائے راشدین سے ثابت اثر بھی منقطع یا مرسل ہے۔
◈ اجماع کا دعویٰ باطل ہے، اہل علم کے اقوال سے زبردست اختلاف ثابت ہے۔
◈ سنت مؤکدہ کہنے کے لئے مضبوط اور صحیح دلیل کی ضرورت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب