کیا مرد کے لیے سر ڈھانپنا سنت ہے؟ حدیث کی روشنی میں جائزہ
ماخوذ:فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، صفحہ 508

سر کو ٹوپی وغیرہ سے ڈھانپنے کا حکم

سوال:

کیا مرد کے لیے سر کو ٹوپی یا کسی کپڑے سے ڈھانپنا ضروری یا مستحب ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایات اور اقوالِ محدثین کی روشنی میں اس مسئلے کی تفصیل درج ذیل ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کپڑا یا ٹوپی

شرح السنہ جیسی کتب میں یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم
کے سر پر ہمیشہ ٹوپی یا کپڑا ہوتا تھا۔ یہ بات بعض محققین جیسے کہ شیخ البانی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے صحیح قرار دی ہے۔

حدیث کی وضاحت اور سند کا تجزیہ

فتح الباری (جلد 10، صفحہ 274، حدیث 5807) میں یہ حدیث مذکور ہے:

"کان صلی اللہ علیہ وسلم یکثر القناع”

مگر حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو "صحیح” قرار نہیں دیا۔

منہاج المسلمین کی روایت اور اس پر تبصرہ

مسعود احمد بی ایس سی (تکفیری خارجی) نے اپنی کتاب منہاج المسلمین
(طبع 1416ھ) صفحہ 479، حاشیہ نمبر 1 میں
شرح السنہ للبغوی سے اس حدیث کو نقل کرکے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ:

"مرد کو بھی اکثر اپنا سر ڈھکا رکھنا چاہیے، خاص طور پر جب کہیں جائے۔”
(حوالہ مذکورہ)

حدیث کی اصل ماخذ اور اسناد کی حیثیت

یہ روایت
شرح السنہ للبغوی (جلد 12، صفحہ 82، حدیث 3164)
میں موجود ہے، جو
امام ترمذی کی سند سے مروی ہے۔ یہی روایت
امام ترمذی کی کتاب
الشمائل
(حدیث 33، 125 بتحقیقی)
میں بھی اسی سند کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔

تاہم، اس روایت کا ایک راوی
یزید بن ابان الرقاشی
ہے، جس کے متعلق محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

محدثین کی آراء برائے یزید بن ابان الرقاشی

امام بخاری رحمہ اللہ نے
کتاب الضعفاء
میں فرمایا:

"کان شعبة یتکلم فیه”
(یعنی شعبہ اس پر جرح کرتے تھے)
(صفحہ 102، ت 413، بتحقیقی)

امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"متروک بصری”
(یعنی بصری متروک ہے)
(کتاب الضعفاء: 642)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
تقریب التہذیب
(صفحہ 381)
میں اس کے متعلق لکھا ہے:

"زاهد ضعیف”
(یعنی وہ زاہد لیکن ضعیف راوی ہے)

لہٰذا اس روایت کی سند ضعیف ہے۔

بیہقی کی روایت اور اس کی حیثیت

بیہقی نے
شعب الایمان
(جلد 5، صفحہ 226، حدیث 6465۔ دوسرا نسخہ: جلد 8، صفحہ 429، حدیث 6046)
میں اس روایت کا ایک اور شاہد نقل کیا ہے۔

تاہم، اس کی سند میں درج ذیل راوی موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ بھی ضعیف ہے:

بشر بن مبشر (شعب الایمان میں "مبشر بن مکسر” لکھا ہوا ہے؟)
محمد بن ہارون بن عیسیٰ الازوی

یہ دونوں راوی قابلِ اعتماد نہیں، جس سے یہ روایت بھی ضعیف ٹھہرتی ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق

شیخ البانی رحمہ اللہ نے درج بالا دونوں روایتوں کو
سند کے اعتبار سے ضعیف قرار دیا ہے۔

(ملاحظہ ہو: الضعیفہ جلد 5، صفحہ 380، حدیث 2356)

نتیجہ

ضعیف روایات کو دلیل بنا کر حکم اخذ کرنا اور ان سے فقہی مسئلہ نکالنا درست نہیں۔ ایسا کرنا رجسٹرڈ "جماعت المسلمین” کے "امیر” کا طریقہ کار ہے، جس کی تقلید میں ان کے پیروکار اندھا دھند عمل کرتے ہیں۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1