سوال:
ماہنامہ محدث لاہور (جلد ۳۷، شمارہ ۱۱، نومبر ۲۰۰۵ء، صفحہ ۸) میں حافظ حسن مدنی صاحب نے زلزلے سے متعلق چند روایات نقل کی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ:
"لوگ جب زنا کو حلال سمجھنے لگیں، شراب خوری عام ہو جائے، اور ناچ گانے میں مبتلا ہو جائیں، تو اللہ تعالیٰ زمین کو حکم دیتا ہے کہ ان پر زلزلہ لے آ۔ اگر وہ توبہ کر لیں تو بچ جائیں، ورنہ زمین کو ان پر الٹ دے۔”
مزید منقول ہے کہ:
نبی کریم ﷺ نے زلزلے کے وقت زمین کو رکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ تنبیہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زلزلے کو بدعتوں کی کثرت کا نتیجہ قرار دیا۔
حضرت کعب نے زلزلے کو معصیت کے خلاف اللہ کے غضب سے تعبیر کیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے زلزلے کو عتابِ الٰہی قرار دیا اور لوگوں کو توبہ و صدقہ کا حکم دیا۔
سوال یہ ہے کہ ان روایات کی سند اور درایت کے اعتبار سے حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ تمام روایات صحیح ہیں؟
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان تمام منقولہ روایات کی تحقیق درج ذیل ہے:
🔹 روایت نمبر 1: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے زلزلے کی تفصیل
مستدرک حاکم: حدیث 8575
سند: بقیہ بن الولید عن زید (یزید) بن عبداللہ الجهني عن أبی العالیہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ
◼ سند کا تجزیہ:
بقیہ بن الولید – صدوق لیکن مدلس راوی ہیں۔ یہ روایت معنعن ہے (عن عن سے ہے)، اور سماع کی تصریح نہیں پائی جاتی۔
(طبقات المدلسین: 4/117)
یزید بن عبداللہ الجهني – مجہول الحال راوی ہیں۔ ان کی تعدیل صرف حاکم نیشاپوری نے کی ہے، جو متفرد ہیں۔
حافظ ذہبی نے اس کی ایک روایت کے بارے میں کہا:
"لا یصح خبره”
(میزان الاعتدال: 4/431)
حاکم نیشاپوری نے اسے "صحیح علی شرط مسلم” قرار دیا ہے، لیکن حافظ ذہبی نے تعاقب کرتے ہوئے فرمایا:
"بل أحسبه موضوعا علی أنس، ونعیم منکر الحدیث إلی الغایة”
◼ نتیجہ:
یہ روایت ضعیف اور مردود ہے۔
🔹 روایت نمبر 2: نبی ﷺ کے زلزلے پر زمین سے خطاب کا واقعہ
یہ روایت مرسل ہے (یعنی صحابی کا واسطہ نہیں)، لہٰذا ضعیف ہے۔
(ماخذ: الداء والدواء، صفحہ 66)
🔹 روایت نمبر 3: عہد فاروقی میں زلزلہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول
یہ روایت مناقب عمر لابن ابی الدنیا کے حوالے سے نقل کی گئی، لیکن بغیر سند ہے۔
جب تک سند صحیح یا حسن نہ ہو، ایسی روایت قابل استدلال نہیں۔
🔹 روایت نمبر 4: حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی روایت بحوالہ احمد
یہ روایت نہ تو مسند احمد میں موجود ہے، نہ کتاب الزہد میں، اور بے سند ہے۔
لہٰذا مردود ہے۔
🔹 روایت نمبر 5: قولِ کعب الاحبار
یہ قول بھی بغیر حوالہ اور سند کے ہے، اس لیے قابل قبول نہیں۔
🔹 روایت نمبر 6: حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول
یہ روایت بھی بے حوالہ اور بے سند ہے، جیسا کہ
الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی (عرف: الداء والدواء، تحقیق: احمد بن محمد آل نبتہ، صفحہ 66-67)
میں واضح ہے۔
ماخذ کی تحقیق:
تمام روایات کا مجموعی ماخذ کتاب
الداء والدواء از علامہ ابن قیم الجوزیہ
ہے۔ لیکن مذکورہ روایات صفحہ 63، 64 (نسخہ ماہنامہ محدث کے مطابق) اور صفحہ 66، 67 (تحقیقی نسخہ) میں موجود ہونے کے باوجود ان کی سند ضعیف، منقطع یا بے سند ہے۔
خلاصہ تحقیق:
◈ زلزلے سے متعلق مذکورہ تمام روایات کی اسنادی حیثیت ضعیف یا مردود ہے۔
◈ ان میں سے کوئی روایت ایسی نہیں جسے صحیح یا حسن کہا جا سکے۔
◈ بعض روایات من گھڑت اقوال، اقوال تابعین یا بے سند اقوال پر مشتمل ہیں۔
◈ اہل علم، خطبا اور مصنفین کو چاہیے کہ ضعیف و مردود روایات کو نصائح و مواعظ یا عقائد کی بنیاد نہ بنائیں۔
◈ صرف صحیح و ثابت احادیث و آثار ہی کو استدلال کے طور پر پیش کیا جائے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب