سوال:
ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے جب کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ ختم ہو جائے (یعنی دھوپ آ جائے) اور اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں ہو اور کچھ سائے میں، تو اسے وہاں سے اٹھ جانا چاہئے (یعنی مکمل سایہ یا مکمل دھوپ میں چلا جائے).”
(ابوداود)
اور شرح السنہ میں یہ الفاظ ہیں:
"تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو پھر وہ سایہ جاتا رہا، تو وہ وہاں سے اٹھ جائے کیونکہ کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے.”
(مشکوٰۃ المصابیح جلد دوم صفحہ 457، حدیث 4725، 4726)
سوال یہ ہے کہ دھوپ اور سایہ میں نماز پڑھنے کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں کیا وضاحت ہے؟ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں۔
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول اللہ، أما بعد!
یہ روایت جس کا ذکر مشکوٰۃ المصابیح میں ہوا، وہ درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
◈ سنن ابی داود
(کتاب الادب، باب 15، حدیث 4821)
◈ مسند الحمیدی
(تحقیقی نسخہ: 1145)
◈ السنن الکبریٰ للبیہقی
(جلد 3، صفحہ 236، 237)
سند کا جائزہ:
روایت کی سند ہے:
محمد بن المنکدر قال: حدثنی من سمع ابا ہریرہؓ
اس سند میں "حدثنی من سمع” کا فاعل مجہول ہے، یعنی جس شخص نے محمد بن المنکدر کو حدیث سنائی، وہ نامعلوم ہے۔ اس بنا پر یہ سند ضعیف قرار پاتی ہے۔
امام منذری نے فرمایا:
"وتابعیه مجہول”
یعنی اس روایت کا تابعی راوی مجہول ہے۔
(الترغیب و التہذیب، جلد 4، صفحہ 59)
(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 383، حدیث 8976) میں اس مجہول تابعی کا ذکر گر گیا ہے۔
شرح السنہ اور دیگر مصادر میں روایت کا درجہ:
شرح السنہ للبغوی
(جلد 12، صفحہ 301، حدیث 3335)
میں یہ روایت موقوف اور منقطع ہے۔
اس میں محمد بن المنکدر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک مجہول واسطہ گرا ہوا ہے۔
مصنف عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے:
(جلد 11، صفحہ 23-24، حدیث 19799)
عبدالرزاق الصنعانی کی تدلیس:
عبدالرزاق الصنعانی رحمہ اللہ مدلس تھے، اور جب تک وہ اپنی روایت میں سماع کی تصریح نہ کریں، ان کی روایت قابلِ استدلال نہیں ہوتی۔
(کتاب الضعفاء للعقیلی، جلد 3، صفحہ 110-111، سند صحیح)
یہاں عبدالرزاق کی تدلیس کا ذکر ہے۔
روایت کے دیگر شواہد:
◈ عبدالرزاق نے ضعیف سند کے ساتھ محمد بن المنکدر سے روایت کیا کہ وہ دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنے کو جائز سمجھتے تھے۔
(حدیث 19801، راوی: اسماعیل بن ابراہیم بن ابان؟)
◈ عبدالرزاق کی سند سے "عن معمر عن قتادہ” کی روایت نقل کی گئی، جس میں قتادہ نے دھوپ اور چھاؤں میں بیٹھنے کو مکروہ کہا۔
(حدیث 19800)
لیکن یہ سند بھی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دو مزید شواہد کا تجزیہ:
پہلا شاہد:
روایت:
قتادہ عن کثیر (بن ابی کثیر البصری) عن ابی عیاض (عمرو بن الاسود العنسی) عن رجل من اصحاب النبی ﷺ…
(مسند احمد، جلد 3، صفحہ 413-414، حدیث 15421)
اس میں قتادہ مدلس راوی ہیں اور روایت "عن” کے ساتھ ہے۔
شیخ البانی نے کہا کہ شعبہ نے قتادہ سے یہ روایت کی، لیکن سند پیش نہیں کی گئی۔
(اتحاف المہرۃ، جلد 16، صفحہ 763، حدیث 21215)
میں یحییٰ بن سعید القطان عن شعبہ کی سند سے یہ روایت مرسلاً بیان ہوئی، یعنی صحابی کا نام مذکور نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس روایت میں تدلیس اور ارسال کی وجہ سے ضعف پایا جاتا ہے۔
دوسرا شاہد:
روایت:
"ابو المنیب عن ابن بریدة عن ابیہ أن النبی ﷺ نهى أن يقعد بين الظل والشمس”
(ابن ماجہ: 3722، ابن ابی شیبہ فی المصنف: 8/491، حدیث 25954، مستدرک: 4/272، حدیث 7714)
اس روایت کی سند حسن ہے۔
کتاب تسہیل الحاجہ (قلمی نسخہ، صفحہ 261) اور امام بوصیری نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
مجموعی طور پر نتیجہ:
"دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے” – اس مفہوم کی مرفوع روایت اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اسے صحابہ و تابعین کے آثار اور دیگر حسن روایتوں کی تائید حاصل ہے۔
اس بنا پر سنن ابی داود والی روایت بھی حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
تابعین کے اقوال:
◈ عکرمہ تابعی:
"جو شخص دھوپ اور سایہ میں بیٹھتا ہے، تو ایسا بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے.”
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 8، صفحہ 4891، حدیث 25953، سند صحیح)
◈ عبید بن عمیر تابعی:
"دھوپ اور سایہ میں بیٹھنا شیطان کا بیٹھنا ہے.”
(ابن ابی شیبہ، حدیث 25952، سند صحیح)
شرعی حکم:
دھوپ اور سایہ کے درمیان بیٹھنا مکروہ ہے۔
اس پر صحابہ و تابعین کا عمل اور ان کے اقوال موجود ہیں۔
نماز پڑھنا اگر ایسی حالت میں ہو تو بہتر یہی ہے کہ مکمل سایہ یا مکمل دھوپ میں پڑھی جائے تاکہ خشوع و خضوع میں خلل نہ آئے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب