سوال:
کیا یہ بات درست ہے کہ مشرکینِ مکہ کے ایک سردار ولید بن مغیرہ المخزومی نے جب قرآن سنا تو بے اختیار ہو کر کہا:
"بخدا، تم میں سے کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ نہ شعر سے واقف ہے، نہ رجز اور قصیدہ سے، اور نہ ہی جنّات کے الہام سے۔ خدا کی قسم! یہ کلام جو اس شخص (محمد ﷺ) کی زبان پر جاری ہے، ان چیزوں میں سے کسی سے مشابہ نہیں ہے۔ بخدا! اس کلام میں بڑی حلاوت ہے، اور اس پر بڑی رونق ہے۔ اس کی شاخیں ثمربار اور جڑیں شاداب ہیں۔ یہ ضرور غالب ہوگا، اس پر کوئی چیز غالب نہیں آسکے گی، بلکہ یہ ہر چیز کو اپنے نیچے کچل دے گا۔”
(السیرۃ النبویہ لابن کثیر ۱؍۴۹۹ بحوالہ میزان تصنیف: جاوید احمد غامدی ص۱۷)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حافظ ابن کثیر نے اپنی کتاب السیرۃ النبویہ اور البدایہ والنہایہ
(نسخہ محققہ، جلد ۳، صفحہ ۲۷۴)
میں امام بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔
روایت کی اصل سند:
یہ روایت امام بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ
(جلد ۲، صفحہ ۱۹۸)
میں اس سند سے موجود ہے:
’’حدثنا محمد بن عبداللہ الحافظ قال: اخبرنا ابوعبدالله محمد بن علی الصنعانی بمکة قال: حدثنا اسحاق بن ابراهیم قال: اخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن ایوب السختیانی عن عکرمة عن ابن عباس‘‘
یہی روایت امام حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب المستدرک
(جلد ۲، صفحہ ۵۰۷، حدیث نمبر ۳۸۷۲)
میں نقل کی ہے۔ حاکم اور ذہبی دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سند کے رواۃ کی وضاحت:
محمد بن علی بن عبدالحمید الصنعانی کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ وہ صدوق تھے۔ ان کی وفات ۳۸۱ھ تا ۴۰۰ھ کے درمیان ہوئی۔
ماخذ: تاریخ الاسلام للذہبی (جلد ۲۷، صفحہ ۴۰۸)
اسحاق بن ابراہیم کون ہیں؟
اس سند میں "اسحاق بن ابراہیم” سے مراد اسحاق بن ابراہیم الدَّبَری ہیں، نہ کہ اسحاق بن ابراہیم بن مخلد (ابن راہویہ)۔ اس کی درج ذیل دلائل ہیں:
◈ المستدرک میں حاکم نے متعدد روایات محمد بن علی بن عبدالحمید عن اسحاق بن ابراہیم بن عباد کی سند سے نقل کی ہیں۔
◈ مثلاً: جلد ۱، صفحہ ۴۳، حدیث ۱۳۰
◈ اور بعض مقامات پر صراحت سے ’’ثنا اسحاق بن ابراہیم الدبری‘‘ کہا گیا ہے
(المستدرک، جلد ۴، صفحہ ۴۲۲، حدیث ۸۳۰۲)۔
◈ امام واحدی نے عبدالرحمن بن احمد بن محمد بن عبدان العطار کے ذریعہ محمد بن عبداللہ بن نعیم (الحاکم) سے روایت کیا ہے اور "اسحاق بن ابراہیم الدبری” کی صراحت کی ہے۔
ماخذ: اسباب النزول للواحدی، صفحہ ۳۷۵-۳۷۶، سورۃ المدثر
(تنبیہ: وہاں ’’اللزبری‘‘ چھپ گیا ہے جو کمپوزنگ کی غلطی ہے۔)
◈ اگر محمد بن علی کی وفات ۳۸۱ھ تسلیم کی جائے، تو امام اسحاق بن راہویہ ۲۳۸ھ میں فوت ہوئے۔ اس صورت میں محمد بن علی کی عمر ۱۴۳ سال بنتی ہے، جو بہت غیرمعمولی ہے اور کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اسحاق بن راہویہ سے ملاقات ممکن نہیں۔
حافظ ذہبی نے بھی واضح کیا:
"سمع من اسحاق الدبری جملة صالحة وحدث بمکة”
(تاریخ الاسلام، جلد ۲۷، صفحہ ۴۰۸)
اسحاق بن راہویہ سے یہ روایت کسی معتبر حدیثی سند کے ساتھ موجود نہیں۔
لہٰذا حافظ ابن کثیر اور ان کی پیروی میں شیخ البانی وغیرہ کا اسے اسحاق بن راہویہ سے منسوب کرنا غلط ہے۔
یہ غلطی اس لیے ہوئی کہ دونوں راویوں (الدبری اور راہویہ) کے والد کا نام "ابراہیم” تھا، جس کی وجہ سے مغالطہ پیش آیا۔ واللہ اعلم
اس روایت کی صحت پر اشکالات:
اگرچہ یہ روایت کتب حدیث میں موجود ہے، مگر اسحاق بن ابراہیم الدبری کے واسطے سے آئی ہونے کی وجہ سے کئی اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
➊ عبدالرزاق کا اختلاط (حافظے کی کمزوری)
عبدالرزاق بن ہمام آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور اختلاط کا شکار تھے۔
◈ امام احمد بن حنبل:
"ہم ۲۰۰ھ سے پہلے ان کے پاس گئے اور ان کی نظر صحیح تھی، لیکن جس نے ان کی نابینائی کے بعد ان سے سنا، اس کی روایت ضعیف ہے۔”
(تاریخ دمشق لابی زرعہ الدمشقی: ۱۱۶۰)
◈ امام نسائی:
"فیه نظر لمن کتب عنه بآخرة”
(کتاب الضعفاء: ۳۷۹)
◈ اسحاق الدبری نے عبدالرزاق سے ۲۱۰ھ میں سنا، جبکہ ان کی وفات ۲۱۱ھ میں ہوئی۔
ماخذ: مقدمۃ ابن الصلاح، صفحہ ۴۶۰ و ۴۹۸
➋ کم سنی:
اسحاق الدبری نے عبدالرزاق سے روایت اس وقت سنی جب ان کی عمر تقریباً سات سال تھی۔
ماخذ: میزان الاعتدال، جلد ۱، صفحہ ۱۸۱ و ۳۳۲
➌ روایتوں کا اختلاف:
◈ ثقہ راوی سلمہ بن شبیب کی روایت میں اس واقعے کی سند یوں ہے:
’’عبدالرزاق عن معمر عن رجل عن عکرمۃ: ان الولید بن المغیرۃ جاء۔۔۔‘‘
(تفسیر عبدالرزاق، جلد ۲، صفحہ ۲۶۳، حدیث ۳۳۸۴)
◈ ایک اور روایت میں محمد بن ثور الصنعانی نے "معمر عن عباد بن منصور عن عکرمۃ” کی سند سے مرسل روایت بیان کی ہے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری، جلد ۲۹، صفحہ ۹۸)
نتیجہ:
اسحاق الدبری کی روایت شاذ یا منکر ہے۔
اگر بالفرض یہ عبدالرزاق تک صحیح بھی ہوتی تو بھی درج ذیل دو وجوہات سے ضعیف اور مردود ہے:
◈ عبدالرزاق مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔
◈ باقی صحیح اور ثقہ روایات میں یہ مرسل ہے، اور مرسل میں رجل (عباد بن منصور) موجود ہے جو ضعیف مدلس ہے۔
غامدی صاحب کی علمی کمزوری کی نشاندہی:
جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب میزان کی ابتدا میں اس ضعیف روایت کو بنیاد بنا کر اپنے نتائج اخذ کیے، جس سے ان کی علمِ حدیث سے ناواقفیت ظاہر ہوتی ہے۔
مزید بے سند اقوال:
بطورِ فائدہ یہ بھی ملاحظہ ہو:
◈ محمد بن عمران المرزبانی (معتزلی اور مجروح راوی) نے بغیر سند کے نقل کیا کہ فرزدق نے لبید بن ربیعہ کا ایک شعر سن کر خچر سے اتر کر سجدہ کیا۔
(الاصابہ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۷)
◈ حافظ ابن عبدالبر نے بھی بغیر سند نقل کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لبید سے شعر سنانے کی درخواست کی، تو لبید نے کہا:
’’بقرہ اور آل عمران کے بعد اب شعر کہاں؟‘‘
(الاستیعاب، جلد ۳، صفحہ ۳۲۷)
ان دونوں بے سند اقوال کو غامدی صاحب نے اپنی کتاب میں یقینی انداز میں نقل کیا ہے۔
انتباہ:
ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ جب کوئی حوالہ پیش کرے تو اس کی تحقیق بھی کرے۔ اگر خود تحقیق نہیں کر سکتا، تو علماء سے رجوع کرے۔ بصورتِ دیگر وہ اس حدیث کا مصداق بنے گا:
"آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا پھرے۔”
(صحیح مسلم: ۵، ترقیم دارالسلام: ۷، ۸)
خلاصہ:
اس تفصیلی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ:
◈ ولید بن مغیرہ کے قرآن سننے پر متأثر ہونے والی روایت ضعیف ہے۔
◈ روایت کی سند میں اختلاط زدہ اور کم عمر راوی موجود ہے۔
◈ اس کے برخلاف ثقہ روایات میں یہ مرسل اور ضعیف راوی کے ذریعے ہے۔
◈ لہٰذا اس روایت سے استدلال کرنا علمی طور پر درست نہیں۔
◈ غامدی صاحب کا اس پر اعتماد کرنا ان کی حدیث فہمی کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔