جہری نمازوں میں امام کا بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کے دلائل صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا

«عن عبد الرحمن بن أبزى رضى الله عنه قال: صليت خلف عمر فجهر بسم الله الرحمن الرحيم»
عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے بسم الله الرحمن الرحيم بالجہر (اونچی آواز کے ساتھ) پڑھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ: 412/1 ح 4757، شرح معانی الآثار للطحاوی واللفظ له 1371، السنن الکبری للبیہقی 2/48
اس کے تمام راوی ثقہ و صدوق ہیں اور سند متصل ہے، لہذا یہ سند صحیح ہے۔
فوائد:
(1)اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں امام کا جہر سے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھنا بالکل صحیح ہے۔
(2)عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی بسم الله الرحمن الرحيم بالجہر ثابت ہے۔ جزء الخطیب ومسحہ الذہبی فی مختصر الجہر بالبسملة للخطیب: ص180 ح 41 اور اسے ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
(3)بسم الله سراً (آہستہ) پڑھنا بھی صحیح اور جائز ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ سے ثابت ہے۔ [172/1 ح399]
عمر بن ذر رضی اللہ عنہ کے اثر کے راویوں کی مختصر توثیق درج ذیل ہے:
(ا)عبد الرحمن بن ابزٰی رضی اللہ عنہ صحابی صغیر ہیں۔ [تقریب التہذیب: 3794]
(ب)سعید بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ثقہ ہیں۔ [تقریب التہذیب: 2346]
(ج) ذر بن عبد اللہ ثقہ عابد رمی بالارجاء تھے۔ [تقریب التہذیب: 1840]
(د)عمر بن ذر ثقہ رمی بالارجاء تھے۔ [تقریب التہذیب: 4893]
(ھ)عمر بن ذر سے یہ روایت خالد بن مخلد، ابو احمد اور ابن قتیبہ نے بیان کی ہے۔ ان راویوں کی توثیق کے لیے تہذیب وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1