کیا لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی رات میں آتی ہے؟
سوال:
کیا یہ بات ثابت ہے کہ لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی مخصوص رات میں آتی ہے یا یہ رات مختلف سالوں میں مختلف تاریخوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لیلۃ القدر رمضان کی ہی ایک رات ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنّا أَنزَلنـهُ فى لَيلَةِ القَدرِ﴾
… سورة القدر
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل کیا گیا:
﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ﴾
… سورة البقرة: ۱۸۵
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی عملی رہنمائی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے پہلے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانے عشرے میں اور بعد میں آخری عشرے میں۔ آپ ﷺ نے اسے رمضان کے آخری عشرے میں پایا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مسلسل خوابوں میں یہ اشارہ ملا کہ لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«أَرَی رُؤْيَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی الْسبعِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فی السبعَ ِ الْأَوَاخِرِ»
(صحیح البخاری، فضل لیلة القدر، باب التماس لیلة القدر، حدیث: ۲۰۱۵، صحیح مسلم، الصیام، باب فضل لیلة القدر، حدیث: ۱۱۶۵)
’’میں دیکھتا ہوں کہ آخری سات راتوں کے بارے میں لوگوں کو مسلسل خواب دکھے ہیں، لہٰذا جو لیلۃ القدر کو تلاش کرنا چاہے، وہ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرے۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری سات دنوں میں کسی بھی رات ہو سکتی ہے۔
لیلۃ القدر متعین رات نہیں:
جب ہم ان تمام دلائل پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی رات پر معین نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک سال سے دوسرے سال میں مختلف راتوں میں ہو سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کو خواب میں لیلۃ القدر اس طرح دکھائی گئی کہ آپ ﷺ اس کی صبح پانی اور مٹی میں سجدہ کریں گے، اور یہ رات رمضان کی اکیسویں تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِیَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ»
(صحیح البخاری، فضل لیلة القدر، باب تحری لیلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر، حدیث: ۲۰۱۷)
’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ لیلۃ القدر کسی ایک خاص رات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آخری عشرے کی مختلف راتوں میں اسے تلاش کرنا چاہیے۔
اجر و ثواب کا حصول:
ان تمام احادیث کو اگر ہم ایک ساتھ رکھیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مسلمان کو رمضان کے آخری عشرے کی ہر رات میں لیلۃ القدر کی امید رکھنی چاہیے۔ جو شخص بھی ایمان اور ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کرے گا، اس کا اجر اسے ضرور ملے گا، خواہ اسے علم ہو کہ یہ لیلۃ القدر ہے یا نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
«مَنْ قامْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»
(صحیح البخاری، الصوم، باب من صام رمضان ايمانا واحتسابا، حدیث: ۱۹۰۱، صحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان، حدیث: ۷۶۰)
’’جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ لیلۃ القدر کا اجر حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان کو اس بات کا علم ہو کہ وہی رات لیلۃ القدر ہے۔ اگر کوئی پورے آخری عشرے کا قیام کرے تو وہ یقیناً لیلۃ القدر کا اجر پا لیتا ہے، چاہے یہ رات عشرے کے شروع میں ہو، درمیان میں ہو یا آخر میں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب