نماز تراویح کی رکعات کی تعداد اور شرعی حیثیت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

نماز تراویح کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور اس کی رکعات کتنی ہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز تراویح کا شرعی حکم

◈ نماز تراویح سنت ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز ادا فرمائی۔
◈ کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو گئے، پھر اگلی رات بھی نماز ادا کی اور زیادہ لوگ شامل ہوئے۔
◈ تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ جمع ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے۔
◈ صبح کو فرمایا:

«قَدْ رَأَيْتُ الَّذِیْ صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَيْکُمْ اِلاَّ اَنِّیْ خَشِيْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ»
(صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب الترغيب فی قيام رمضان… ح۷۶۱)

ترجمہ:
"تم لوگوں نے جو کیا میں نے اسے دیکھا، اور میں اس لیے باہر نہیں آیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے۔”

یہ واقعہ رمضان المبارک سے متعلق ہے، لہٰذا یہ نماز تراویح ہی ہے۔

تراویح کی رکعات کی تعداد

➊ گیارہ رکعت کا ثبوت

◈ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
«مَا کَانَ يَزِيْدُ فِی رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلٰی اِحْدٰی عَشْرَةَ رَکْعَةً»
(صحيح البخاري، التهجد، باب قيام النبی بالليل، ح:۱۱۴۷، وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل… ح: ۷۳۸)

ترجمہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔”

➋ تیرہ رکعت کا ثبوت

◈ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«کَانَتْ صَلَاةُ النَّبِیِّ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً»
(صحيح البخاري، التهجد، باب کيف صلاة النبی… ح: ۱۱۳۸، وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة النبی ودعائه… ح: ۷۶۴)

ترجمہ:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تیرہ رکعت تھی۔”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل

◈ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی گیارہ رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہے۔
◈ انہوں نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔
(الموطا امام مالک، الصلاة، باب ماجاء فی قیام رمضان، حدیث: ۲۸۰)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تھا۔

رکعات کی تعداد میں وسعت

◈ اگر گیارہ یا تیرہ رکعت سے زیادہ پڑھی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب رات کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
"رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔”
(صحیح البخاری، الوتر، باب ما جاء فی الوتر، حدیث: ۹۹۰)
◈ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی نماز کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی۔

سلف صالحین کا عمل اور اجتہاد

◈ سلف صالحین سے تراویح کی مختلف تعداد رکعات ادا کرنے کا عمل منقول ہے۔
◈ اس مسئلہ میں وسعت موجود ہے، لہٰذا اسے اختلاف اور انتشار کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔
◈ کسی عالم نے درست کہا:
"آپ نے میری مخالفت کرکے حقیقت میں میری تائید کی ہے کیونکہ ہم دونوں کا مؤقف یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں انسان جس بات کو حق سمجھے، اس کی پیروی کرنا واجب ہے۔”

اجماع صحابہ اور خلفائے راشدین کی پیروی

◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی روشنی میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع بھی حجت ہے، کیونکہ ان میں خلفائے راشدین شامل ہیں، جن کی پیروی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
◈ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امت کے "خیر القرون” ہیں۔

خلاصہ اور دعا

◈ نماز تراویح سنت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
◈ گیارہ یا تیرہ رکعت افضل ہے، لیکن اس سے زائد پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
◈ اختلافی مسئلہ ہونے کی وجہ سے اس پر جھگڑنے کی اجازت نہیں۔
◈ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی رضا اور پسند کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1