کیا حضرت ابوالغاویہؓ قاتلِ عمارؓ ہونے کے باعث دوزخی ہیں؟
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۴۷۷

سوال

کیا حضرت ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں؟

روایت میں آتا ہے:
"قاتل عمار و سالبه فی النار”
(عمارؓ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا جہنمی ہے)۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: *السلسلۃ الصحیحۃ*، جلد ۵، صفحات ۱۸ تا ۲۰، حدیث نمبر ۲۰۰۸)

یہ بات بھی مسلم ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں حضرت ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔
(دیکھئے: *مسند احمد*، جلد ۴، صفحہ ۷۶، حدیث ۶۶۹۸۔ سند حسن ہے)

تو کیا اس بنا پر حضرت ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ کو دوزخی کہنا درست ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس روایت میں ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا جہنمی ہے، اس روایت کی تخریج اور تحقیق درج ذیل ہے:

پہلی روایت:

لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما۔۔۔
ماخذ: *ثلاثۃ مجالس من الامالی لابی محمد المخلدی* (جلد ۱، صفحہ ۷۵-۷۶)، *السلسلۃ الصحیحۃ* (جلد ۵، صفحہ ۱۸)، *الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم* (جلد ۲، صفحہ ۱۰۲، حدیث نمبر ۸۰۳)

سند کی حیثیت:

یہ سند ضعیف ہے۔
◈ لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہیں۔

اقوال محدثین:

بوصیری: ’’ضعفہ الجمھور‘‘
(*زوائد ابن ماجہ*، صفحات ۲۰۸، ۲۳۰)
ابن الملقن: ’’وھو ضعیف عند المجمہور‘‘
(خلاصۃ البدر المنیر، صفحہ ۷۸، البدر المنیر ۲؍۱۰۴)
امام نسائی: ’’ضعیف کوفی‘‘
(*کتاب الضعفاء*، صفحہ ۵۱۱)

دوسری روایت:

المحمر بن سلیمان التیمی عن ابیہ عن مجاہد عن عبد الله بن عمرو رضی الله عنه۔۔۔
ماخذ: *المستدرک للحاکم* (جلد ۳، صفحہ ۳۸۷، حدیث ۵۶۶۱)

◈ امام ذہبی نے کہا: "علی شرط البخاری ومسلم”

سند کی حیثیت:

یہ روایت ضعیف ہے۔
◈ اس کی سند میں سلیمان بن طرخان التیمی کا "عن” ہے، اور وہ مدلس ہیں۔

اقوال و حوالہ جات:

جامع التحصیل (صفحہ ۱۰۶)
کتاب المدلسین لابی زرعہ ابن العراقی (۲۴)
اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی (۲۰)
التبیین لاسماء المدلسین للحلبی (صفحہ ۲۹)
قصیدۃ المقدسی و طبقات المدلسین للعسقلانی (۵۲؍۲)
امام یحییٰ بن معین: ’’کان سلیمان التیمی یدلس‘‘
(*تاریخ ابن معین، روایت الدوری: ۳۶۰۰*)

نتیجہ:

◈ سلیمان التیمی کو طبقہ ثالثہ کے مدلس شمار کیا گیا ہے، لہٰذا اس روایت کو ’’صحیح علی شرط الشیخین‘‘ کہنا درست نہیں۔

تیسری روایت:

’’ابو حفص و کلثوم عن ابی غادیة قال۔۔۔ فقیل قتلت عمار بن یاسر۔۔۔‘‘
ماخذ: *طبقات ابن سعد* (جلد ۳، صفحات ۲۶۰-۲۶۱، الفاظ اسی کے)، *مسند احمد* (جلد ۴، صفحہ ۱۹۸)، *السلسلۃ الصحیحۃ* (جلد ۵، صفحہ ۱۹)

شیخ البانی کی تحقیق:

◈ شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"وھذا اسناد صحیح، رجالہ لقات رجال مسلم۔۔۔”

تحقیق و تجزیہ:

ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ کے قول "فقیل۔۔۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کسی نامعلوم (مجہول) راوی کے ہیں۔
◈ مجہول راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہو جاتی ہے۔
◈ اس روایت میں دو راوی ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے ہیں:
ابو حفص: مجہول
کلثوم بن جبر: ثقہ
◈ امام حماد بن سلمہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے کس راوی کی روایت نقل کی—مجہول ابو حفص یا ثقہ کلثوم بن جبر کی۔
◈ یہ بھی واضح نہیں کہ دونوں کے الفاظ ایک جیسے تھے یا مختلف۔

نتیجہ:

◈ اس روایت کی تینوں اسناد ضعیف ہیں، لہٰذا اس روایت کو "صحیح” کہنا غلط ہے۔

تنبیہ:

حضرت ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں قتل کرنا ایک اجتہادی خطا تھی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1