سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دریائے نیل
سوال:
کیا یہ بات درست ہے کہ جب دریائے نیل کا بہاؤ رُک گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریا کو خط لکھا تھا، اور جب وہ خط دریا میں ڈالا گیا تو پانی دوبارہ بہنے لگا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ درج ذیل کتب میں روایت "ابن لہیعۃ عن قیس بن حجاج عمن حدثہ” کی سند کے ساتھ منقول ہے:
✿ فتوح مصر لابن عبدالحکم (ص ۱۵۰، ۱۵۱)
✿ کتاب العظمۃ لابی الشیخ (۴؍۱۴۲۴، ۱۴۲۵ ح ۹۳۷)
✿ شرح اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ للالکائی (۲؍۴۰۱ ح ۷۶ کرامات)
✿ کرامات اولیاء اللہ (ص ۶۶)
✿ تفسیر ابن کثیر (۳؍۴۶۴، السجدۃ: ۲۷)
✿ مسند الفاروق (۱؍۲۲۳، ۲۲۴)
✿ البدایہ والنہایہ (۱؍۲۳)
سند کی تحقیق
✿ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ شامل ہے، جو کہ مدلس راوی ہے۔
طبقات المدلسین (۵؍۱۴۰)
✿ اس روایت میں "عن” کے ذریعے روایت کی گئی ہے، یعنی روایت معنعن ہے، جو مدلس راوی سے قابل قبول نہیں۔
✿ قیس بن الحجاج تبع تابعی ہیں، اور انہوں نے جس سے روایت لی ہے، اس استاد کا نام معلوم نہیں، اس لیے سند مجہول اور ضعیف ہے۔
لہٰذا یہ سند "ظلمات” (اندھیری روایتوں) میں شمار ہوتی ہے۔
خلاصہ قصہ
✿ جب مصر فتح ہوا تو وہاں کے لوگوں نے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے کہا:
"ہمارا دریائے نیل صرف اس وقت بہتا ہے جب اس مہینے کی گیارہویں رات کو ایک لڑکی کو دریا میں پھینکا جائے۔”
✿ اس پر سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
"اسلام میں ایسی رسومات کی اجازت نہیں ہے۔”
✿ پھر انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں خط لکھا۔
✿ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً ایک رقعہ بھیجا، جس میں درج تھا:
"اللہ کے بندے عمر کی طرف سے دریائے نیل کی طرف!
اگر تو خود بخود بہتا ہے تو نہ بہہ،
اور اگر تجھے بہانے والا اللہ ہے تو میں اللہ واحد قہار سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے چلادے۔”
✿ جب یہ رقعہ دریا میں ڈالا گیا تو دریا دس ہاتھ بلند ہوکر بہنے لگا۔
خلاصہ تحقیق
یہ روایت ضعیف اور مردود ہے۔
لہٰذا یہ سارا واقعہ بے بنیاد اور باطل ہے، اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب