حدیث «من تعلق شیئا وکل الیه» کی تحقیق
سوال:
حدیث «من تعلق شیئا وکل الیه» (مسند احمد ۴؍۳۱۰، مستدرک حاکم ۴؍۲۱۵) کی تحقیق مطلوب ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث:
«من تعلق شیئا وکل الیه»
یعنی *”جس نے کوئی چیز لٹکائی (مثلاً تعویذ، مٹکا یا دھاگا)، تو وہ اسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے”*
اس روایت کو درج ذیل محدثین نے بیان کیا ہے:
✿ حاکم (۴؍۲۱۶، حدیث: ۷۵۰۳)
✿ ابن ابی شیبہ (۷؍۳۷۱، حدیث: ۲۳۴۴۷)
✿ بیہقی (۹؍۳۵۱)
وغیرہم نے یہ روایت درج ذیل سند سے بیان کی ہے:
’’محمد بن عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ عن اخیہ عیسیٰ بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن عبداللہ بن عکیم‘‘
محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حیثیت:
✿ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔
✿ بوصیری نے فرمایا:
"ضعفہ الجمھور” یعنی اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجۃ: ۸۵۴)
طبرانی کی روایت:
✿ المعجم الکبیر (۲۲؍۳۸۵، حدیث: ۹۶۰) میں بھی یہی روایت مذکور ہے:
’’(محمد) ابن ابی لیلیٰ عن عیسیٰ عن ابی معبد الجھنی‘‘
جہاں ابومعبد الجہنی، دراصل عبداللہ بن عکیم ہی ہیں۔
لہٰذا اس روایت کی سند میں محمد بن ابی لیلیٰ کے ہونے کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے۔
اس حدیث کی تائید میں آنے والی روایات (شواہد)
(۱) روایت:
عباد بن میسرة المنقری عن الحسن عن ابی هریرة رضی الله عنه
✿ السنن المجتبیٰ للنسائی (۷؍۱۱۲، حدیث: ۴۰۸۴)
✿ السنن الکبریٰ للنسائی: ۳۵۴۲
✿ الکامل لابن عدی ۴؍۱۶۴۸
یہ روایت دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
➊ سماع کی تصریح کا فقدان:
حسن بصری نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع کی صراحت نہیں کی، اور وہ تدلیس کیا کرتے تھے۔
(دیکھئے: تقریب التہذیب: ۱۲۲۷، طبقات المدلسین: ۴۰؍۲)
➋ راوی کی کمزوری:
عباد بن میسرہ کو محدثین نے لین الحدیث (ضعیف) قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب: ۳۱۴۹)
(۲) روایت:
مبارک بن فضالۃ عن الحسن عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
✿ صحیح ابن حبان، الاحسان: ۶۰۵۳، دوسرا نسخہ: ۶۰۸۵
اس روایت کی سند میں:
✿ حسن بصری کی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں۔
✿ ایک روایت میں تصریح آئی ہے:
مسند احمد ۴؍۴۴۵
✿ مبارک بن فضالہ ایک مدلس راوی ہے اور یہاں سماع کی تصریح نہیں ہے۔
لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
(۳) روایت:
مشرح بن هاعان عن عقبة بن عامر رضی الله عنه عن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال:
«من تعلق تمیمة فلا اتم الله له، ومن تعلق ودعة فلا ودع الله له»
ترجمہ:
*”جو شخص کوئی تمیمہ (منکا) لٹکائے تو اللہ اسے اس کے لیے پورا نہ کرے، اور جو ودعہ (سفید دھاگا) لٹکائے تو اللہ اسے سکون میں نہ رکھے۔”*
✿ مسند احمد ۴؍۱۵۴، حدیث: ۱۷۴۰۴
✿ صحیح ابن حبان، الاحسان: ۶۰۵۴، دوسرا نسخہ: ۶۰۸۶
✿ المستدرک ۴؍۲۱۶ (حاکم نے صحیح کہا، ذہبی نے موافقت کی)
سند کی حیثیت:
یہ روایت حسن ہے، کیونکہ:
✿ خالد بن عبید کو
✿ ابن حبان
✿ حاکم
✿ ذہبی
نے صحیح الحدیث قرار دیا ہے۔
تابعی کا قول:
ابومجلز لاحق بن حمید (تابعی) نے فرمایا:
"من تعلق علاقة وکل الیها”
*”جو آدمی کوئی چیز لٹکائے گا، وہ اسی کے سپرد کیا جائے گا”*
✿ مصنف ابن ابی شیبہ (۷؍۳۷۴، حدیث: ۲۳۴۵۶)
✿ سند صحیح ہے
نتیجہ:
حدیث «من تعلق شیئا وکل الیه» اپنی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کی بنیادی سند میں محمد بن ابی لیلیٰ ہے، جو کہ ضعیف راوی ہے۔
البتہ اس مفہوم کی تائید صحیح اور حسن احادیث اور تابعی اقوال سے ضرور ہوتی ہے، جیسا کہ:
✿ حدیث: «من تعلق تمیمة فلا اتم الله له…»
✿ قولِ تابعی: «من تعلق علاقة وکل الیها»
یہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شرکیہ یا توہمی اشیاء لٹکانا شرعاً مذموم عمل ہے اور ایسا کرنے والا شخص اللہ پر اعتماد کے بجائے ان اشیاء پر بھروسہ کرتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب