ہرنی کا کلمہ طیبہ پڑھنے کا قصہ: ایک تحقیقی جائزہ
اصل قصہ
مارچ 2006ء کے ماہنامہ محدث میں امام حرم الشیخ راشد الخالد کا ایک خطبۂ جمعہ شائع ہوا جو صحن کعبہ میں دیا گیا تھا۔ اسی خطبے کے دوران پیش کیا گیا ایک واقعہ تحریک ناموس رسالت ﷺ کا محرک بنا۔ اس میں درج واقعہ درج ذیل ہے:
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ ایک دیہاتی نے جنگل سے ایک ہرنی کو شکار کرکے باندھ رکھا تھا۔ جب ہم اس کے پاس سے گزرے تو ہرنی نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور فریاد کرنے لگی: "یہ دیہاتی مجھے شکار کرکے لایا ہے۔ میرے تھنوں کا دودھ مجھ پر گراں ہوگیا ہے۔ مجھے آزاد کریں تاکہ میں اپنے بچوں کے پاس جا کر ان کو دودھ پلا آؤں اور خود بھی سکون پاؤں۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر میں تجھے چھوڑ دوں، کیا تُو واپس آ جائے گی؟”
ہرنی نے جواب دیا: "ہاں، میں واپس آ جاؤں گی۔”
اسی دوران وہ دیہاتی بھی آ گیا جس نے ہرنی کو باندھ رکھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: "کیا تم اس ہرنی کو بیچو گے؟”
دیہاتی نے جواب دیا: "اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آپ کی ہے۔”
رسول اللہ ﷺ نے ہرنی کو آزاد کر دیا۔
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں: "اللہ کی قسم! میں نے اس کو صحرا میں آواز لگاتے سنا، وہ کہہ رہی تھی:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ"
مزید بیان کیا گیا کہ حضرت ام سلمہؓ اور دیگر صحابہؓ سے بھی اس واقعے کے دیگر طرق موجود ہیں۔
(ماہنامہ محدث، اپریل 2006ء، صفحات 28، 29)
اس قصے کی اسنادی حیثیت اور تحقیق
روایت اوّل: حضرت زید بن ارقمؓ کی طرف منسوب روایت
یہ روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (6/35)، دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی (ص133، حدیث 273) اور تلخیص المتشابہ فی الرسم للخطیب (2/730) میں یعلیٰ بن ابراہیم الغزال کی سند سے مذکور ہے:
سند:
"یعلیٰ بن ابراہیم الغزال: ثنا الہیثم بن حماد علی ابی کثیر عن زید بن ارقمؓ”
تبصرہ محدثین:
- سیوطی نے اس روایت کو الخصائص الکبریٰ (2/61) میں بیہقی اور ابونعیم سے نقل کیا ہے۔
- حافظ ذہبی:
"لا اعرفه، له خبر باطل عن شیخ واه”(میں اسے نہیں جانتا، اس کی خبر باطل ہے، جو اس نے کمزور شیخ سے روایت کی ہے)
(میزان الاعتدال 4/456) - حافظ ابن حجر العسقلانی:
"هذا موضوع”
(یہ روایت من گھڑت ہے)
(لسان المیزان 6/314، جدید 7/512) - ہیثم بن حماد اور ابو کثیر بھی مجہول ہیں۔
(میزان الاعتدال 4/321) - خطیب بغدادی:
"الہیثم بن حماد فی عداد المجهولین، یروی عن ابی کثیر شیخ غیر مسمی”
(تلخیص المتشابہ 2/730) - ابن حجر کا گمان ہے کہ یہ "الہیثم بن جماز” ہے:
"ضعیف الحدیث، منکر الحدیث”
(الجرح والتعدیل 9/81)
🔹 نتیجہ:
یہ روایت سخت ضعیف اور موضوع (من گھڑت) ہے۔
روایت دوم: حضرت ابوسعید خدریؓ کی طرف منسوب روایت
ماخذ: دلائل النبوۃ للبیہقی (6/34)
سند:
"علی بن قادم: حدثنا ابوالعلاء خالد بن طہمان عن عطیہ عن ابی سعیدؓ”
تبصرہ محدثین:
- عطیہ بن سعد العوفی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
(الحدیث، شمارہ 24، ص40) - عطیہ مدلس تھا۔
(طبقات المدلسین 4/122) - وہ محمد بن السائب الکلبی سے تدلیس کرتا تھا، جو کذاب ہے۔
(کتاب المجروحین لابن حبان 2/176)
(الحدیث 24، ص52 تا 54)
🔹 نتیجہ:
یہ سند موضوع ہے، روایت ناقابل قبول ہے۔
روایت سوم: حضرت انس بن مالکؓ کی طرف منسوب روایت
ماخذ:
طبرانی الاوسط (حدیث 5543)
دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی (ص133، حدیث 274)
سند:
"محمد بن عثمان بن ابی شیبہ: حدثنا ابراہیم بن محمد بن میمون: حدثنا عبدالکریم بن ہلال الجعفی عن صالح المری عن ثابت البنانی عن انسؓ”
تبصرہ محدثین:
- ابراہیم بن محمد بن میمون شیعہ اور ضعیف ہے۔
(لسان المیزان 1/107) - عبدالکریم بن ہلال مجہول ہے۔
(میزان الاعتدال 2/647، لسان المیزان 4/52) - صالح المری ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب 2845، مجمع الزوائد 8/295)
🔹 نتیجہ:
یہ روایت بھی ضعیف، مردود اور ناقابلِ حجت ہے۔
روایت چہارم: طبرانی اور ابونعیم کی روایت
ماخذ:
المعجم الکبیر للطبرانی (23/331، 332، حدیث 763)
البدایہ والنہایہ لابن کثیر (6/155)
تبصرہ محدثین:
- حبان بن اغلب بن تمیم کے بارے میں امام بخاری:
"منکر الحدیث”
(التاریخ الکبیر 2/70) - اغلب بن تمیم ضعیف ہے۔
(مجمع الزوائد 8/295)
🔹 نتیجہ:
یہ روایت بھی شدید ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
روایت پنجم: ابن ابی خثیمہ کی روایت
سند:
"شریک عن عمر بن عبداللہ عن یعلی بن مرہ عن ابیہ عن جدہ”
تبصرہ محدثین:
- قاضی شریک مدلس ہیں۔
(طبقات المدلسین 2/56) - عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب 4933، تحفۃ الاقویاء ص77) - عبداللہ بن یعلیٰ بن مرہ بھی ضعیف ہے۔
(دیوان الضعفاء للذہبی 2353، لسان المیزان 3/379)
تنبیہ:
یہ روایت التاریخ الکبیر میں موجود نہیں پائی گئی، نہ حافظ ابن حجر کو ملی۔
(المعتبر فی تخریج احادیث المنہاج والمختصر، ص120)
🔹 نتیجہ:
یہ روایت بھی مردود ہے۔
خلاصہ تحقیق
ہرنی کا کلمہ طیبہ پڑھنے کا واقعہ کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی سند سے ثابت نہیں۔ تمام روایات ضعیف، من گھڑت یا ناقابلِ اعتماد راویوں پر مشتمل ہیں۔
لہٰذا، اس واقعے کو بغیر تحقیق یا تنقید کے بیان کرنا درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب