کیا امام بخاری بچپن میں نابینا ہوئے؟ تحقیق و سند کا جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ – توضیح الاحکام، جلد ۲، صفحہ ۴۴۳

کیا امام بخاری رحمہ اللہ بچپن میں نابینا ہوگئے تھے؟ – تفصیلی تحقیقی جائزہ

سوال:

کیا یہ واقعہ صحیح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بچپن میں نابینا ہوگئے تھے اور پھر ان کی والدہ کی دعاؤں کے نتیجے میں ان کی بینائی واپس لوٹ آئی؟ اس کی سند کی تحقیق درکار ہے۔

واقعہ کا بیان:

مولانا ارشاد الحق اثری صاحب اپنی کتاب آفاتِ نظر اور ان کا علاج میں لکھتے ہیں:

’’حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی صغرسنی میں آنکھیں خراب ہوگئیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی بصارت جاتی رہی، امام بخاری کی والدہ محترمہ جو بڑی عابدہ اور صاحبِ کرامات خاتون تھیں، دعا کیا کرتیں کہ اے اللہ! میرے بیٹے کی بینائی درست کردو۔ ایک رات خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہوتی ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ تمھاری کثرتِ دعاء کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تمھارے بیٹے کی بینائی واپس لوٹا دی ہے۔ چنانچہ اس شب کو جب وہ بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرزند کی بینائی درست کردی۔‘‘
(تاریخ بغداد ص۱۰ ج۲۔ ھدی الساری ص۴۷۸)
(آفاتِ نظر اور ان کا علاج، ص۶۰، ناشر ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد)

سند کی تحقیق:

سند کا متن (تاریخ بغداد کے مطابق):

’’حدثنی ابوالقاسم عبدالله بن احد بن علی السوذرجانی باصبهان من لفظه قال: نبانا علی بن محمد بن الحسین الفقیه قال: نبانا خلف بن محمد الخیام قال: سمعت ابا محمد عبدالله بن محمد بن اسحاق السمسار یقول: سمعت شیخی یقول: ذهبت عینا محمد بن اسماعیل فی صغره فرات والدته فی المنام ابراهیم الخلیل علیه السلام، فقال لها: یاهذه قدردالله علی ابنک بصره لکثرة بکائک اولکثرة دعائک، قال: فاصبح وقدرداللہ علیه بصره‘‘
(تاریخ بغداد، ۲؍۱۰، ت۴۲۴)

راویوں کی تحقیق:

شیخ:
– نام نامعلوم، یعنی مجہول ہے۔

ابو محمد المؤذن عبد الله بن محمد بن اسحاق السمسار:
– ان کے حالات دستیاب نہیں، یعنی مجہول الحال ہیں۔

خلف بن محمد الخیام:
سخت ضعیف راوی ہے۔
– امام خلیلی نے فرمایا:

’’وهو ضعیف جدا‘‘
(الارشاد للخلیلی، ج۳، ص۹۷۲؛ لسان المیزان، ۴؍۴۰۴)

– امام حاکم نیشاپوری، ابن ابی زرعہ، اور ابوسعد الادریسی نے بھی اس کی جرح و تضعیف کی ہے۔

علی بن محمد بن الحسین الفقیہ:
– ان کے بارے میں بھی کوئی معلومات دستیاب نہیں، یعنی مجہول الحال ہیں۔

ابوالقاسم عبدالله بن احمد بن علی السوذر جانی:
– ان کے حالات بھی نہیں ملے، یعنی یہ بھی مجہول ہیں۔

نتیجہ:

یہ سند سخت ضعیف ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

حافظ ابن حجر العسقلانی کی روایت:

ہدی الساری، مقدمہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا:

’’فروی غنجار فی تاریخ بخاری والالکائی فی شرح السنة فی باب کرامات الاولیاء منه ان محمد بن اسماعیل ذهبت عیناه فی صغره‘‘
(ہدی الساری، ص۴۷۸)

غنجار والی روایت کی سند:

’’انا خلف بن محمد قال: سمعت احمد بن محمد بن الفضل البلخی یقول: سمعت ابی یقول: ذهبت عینا محمد بن اسماعیل فی صغره‘‘
(تغلیق التعلیق، ۵؍۳۸۸)

    • غنجار (محمد بن احمد محمد بن سلیمان بن کامل البخاری):
      ان کے حالات سیر اعلام النبلاء (۱۷؍۳۰۴) وغیرہ میں موجود ہیں۔

 

    • خلف بن محمد الخیام:
      جیسا کہ پہلے بیان ہوا، یہ سخت ضعیف راوی ہے۔

 

  • احمد بن محمد بن الفضل البلخی:
    ان کے حالات بھی نامعلوم ہیں۔

امام لالکائی کی روایت:

امام لالکائی نے ’’کرامات اولیاء اللہ‘‘ میں یہ روایت سند کے ساتھ یوں بیان کی:

’’اخبرنا احمد بن محمد بن حفص عن غنجار‘‘
(کرامات اولیاء اللہ، ص۲۹۰، حدیث ۲۲۹)

تاہم، مطبوعہ نسخہ میں کمپوزر یا ناسخ کی غلطی کی وجہ سے سند میں تصحیف و تحریف واقع ہوئی ہے۔

حتمی نتیجہ:

  • تمام اسناد میں ایک مشترکہ راوی "خلف بن محمد الخیام” ہے جو سخت ضعیف ہے۔
  • باقی راویوں میں بھی کئی مجہول اور غیر معروف ہیں۔
  • لہٰذا یہ پورا قصہ سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1