تحقیقی جائزہ: کیا یا ساریۃ الجبل روایت صحیح ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، توضیح الاحکام، جلد ۲، صفحہ ۴۳۳

یا ساریۃ الجبل والی روایت کی تحقیق

سوال:

کیا یا ساریۃ الجبل والی روایت صحیح ہے؟ اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کا مفہوم واضح کریں، اور اگر یہ ضعیف ہے تو اس کی وجہ ضعف بیان کریں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راقم الحروف کی ایک مفصل تحقیق اس موضوع پر ہفت روزہ "الاعتصام” لاہور (جلد ۴۳، شمارہ ۴۵، ۸ نومبر ۱۹۹۱ء) میں شائع ہو چکی ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ درج ذیل ہے:

روایت ’’یا ساریۃ الجبل‘‘ کی سند کے لحاظ سے تحقیق:

یہ قصہ سند کے اعتبار سے صحیح ثابت نہیں ہوتا۔ مختلف سندوں کے حوالے سے اس کی تفصیلی تحقیق مندرجہ ذیل ہے:

(1) ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر

(دلائل النبوۃ للبیہقی ۶؍۳۷۰)
◈ اس سند میں محمد بن عجلان مدلس راوی ہیں۔
◈ "طبقات المدلسین بتحقیقی” (۹۸؍۳، ص ۶۰) کے مطابق، محمد بن عجلان مدلس ہیں۔
◈ وہ "عن” کے ساتھ روایت کر رہے ہیں، اور اصول حدیث کے مطابق غیر صحیحین میں مدلس راوی کی عن سے روایت ضعیف شمار ہوتی ہے۔
(ملاحظہ کریں: مقدمہ ابن الصلاح، ص ۹۹)

(2) ایاس بن معاویہ بن قرۃ کی مرسل روایت

(دلائل النبوۃ للبیہقی ۶؍۳۷۰)
◈ یہ روایت مرسل ہے۔
◈ جمہور محدثین کے نزدیک مرسل روایت مردود ہوتی ہے۔
(دیکھئے: الفیۃ العراقی: ۱۲۳، ص ۲۸)

(3) ایوب بن خوط عن عبدالرحمان السراج عن نافع، الخ

[الفوائد لابی بکر بن خلاد (۱؍۲۱۵؍۲ قلمی) بحوالہ السلسلۃ الصحیحۃ (۳؍۱۰۱، ح ۱۱۱۰)]
◈ اس روایت میں ایوب بن خوط راوی ہے جو کہ متروک ہے۔
(دیکھئے: التقریب: ۶۱۲)

(4) فرات بن السائب عن میمون بن مہران عن ابن عمر، الخ

(اسد الغابہ: ۲؍۲۴۴)
◈ یہاں فرات بن السائب راوی ہے جو کہ متروک اور سخت مجروح ہے۔
(ملاحظہ کریں: میزان الاعتدال ۳؍۳۴۱، و کتب المجروحین)

(5) الواقدی عن شیوخہ

(البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۵، الاصابہ ۲؍۳)
واقدی مشہور کذاب اور متروک راوی ہے۔
(دیکھئے: تہذیب التہذیب ۹؍۳۲۳-۳۲۶)

(6) سیف بن عمر عن شیوخہ

(البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۴)
سیف بن عمر کو محدثین نے متروک الحدیث اور زندیق قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: تہذیب التہذیب ۴؍۲۵۹، ۲۶۰)

(7) ہشام بن محمد بن مخلد بن مطر عن ابی توبۃ عن محمد بن مھاجر عن ابی بلج علی بن عبداللہ، الخ

(السنۃ للالکائی ۷؍۱۳۰، ۱۳۱)
◈ اس سند میں ہشام اور ابو بلج دونوں راوی مجہول ہیں۔

(8) لالکائی عن مالک عن نافع عن ابن عمر

[البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۵، و کرامات اللالکائی: ۷۳، دوسرا نسخہ: ۶۷]
◈ اس روایت کے راوی عمرو بن الازہر کے بارے میں امام دارقطنی فرماتے ہیں:
> "کذاب”
(الضعفاء والمتروکون: ۳۹۵)
ابن حبان نے اسے حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: المجروحین ۲؍۷۸)
◈ لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔
حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت پر کلام کرتے ہوئے کہا:
> ’’وفی صحته من حدیث مالک نظر‘‘
> یعنی اس کی صحت میں کلام ہے۔
(البدایہ ۷؍۱۳۵)

دیگر تمام سندوں کا حکم:

اس قصے کی دیگر تمام سندیں بھی مردود ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا کہ مختلف سندیں مل کر ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں، غلط ہے۔

نتیجہ تحقیق:

مذکورہ واقعہ اپنی تمام اسناد کے ساتھ ضعیف و ناقابل اعتماد ہے۔
اسے کسی متاخر امام یا عالم کی طرف سے صحیح قرار دینا اصولِ حدیث کے خلاف ہے۔
جو لوگ اس واقعے کو صحیح سمجھتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اصولِ حدیث کی روشنی میں اس کی صحت کو ثابت کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے