سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو تركنا هذا الباب للنساء
”اگر ہم یہ دروازہ خواتین کے لیے چھوڑ دیں اور مرد اس سے داخل نہ ہوں تو بہت بہتر ہو۔“
قال نافع: فلم يدخل منه ابن عمر حتى مات، وقال غير عبد الوارث: قال عمر وهو أصح.
امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد سننے کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما مرتے دم تک کبھی اُس دروازے سے مسجد میں نہیں آئے۔ عبدالوارث کے علاوہ دیگر راویوں نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول بیان کیا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
صاحب عون المعبود لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع اور موقوف دونوں طرح ہو سکتی ہے۔ عبدالوارث ثقہ ہیں اور ان کی زیادت قابل قبول ہے۔ اس حدیث کی شرح میں ابو فاروق سعیدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”ظاہر ہے کہ جب مسجد جیسے پاکیزہ مقام و ماحول میں بھی خواتین اور مردوں کے اختلاط کی اجازت نہیں تو دیگر مقامات اور مواقع پر اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔“
خواتین کا نماز استسقاء کے لیے گھر سے نکلنا جائز ہے لیکن انہیں مردوں سے پیچھے رہنا چاہیے۔ وہ مردوں سے جس قدر دور ہوں گی بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خير صفوف النساء آخرها وشرها أولها
”خواتین کی بہترین صف آخری ہے اور بدتر پہلی صف۔“
(مسلم، ابوداود)
پہلی صف کے وسط میں دوسری مقتدی خواتین کے ساتھ برابر کھڑی ہو کر امامت کر سکتی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خواتین کی امامت کرائی جب کہ وہ خود صف کے درمیان کھڑی ہوئی تھیں۔
(سنن دارقطنی، حدیث: 1429)
سیدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أمرها أن تؤم أهل دارها
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر میں خواتین کی امامت کرائیں۔“
(سنن ابی داود، کتاب الصلاة، باب امامة النساء، حدیث: 592)
خواتین بھی مردوں کی طرح اپنی صفوں میں مل کر کھڑی ہوں اور صف سیدھی بنائیں۔ اگر بچے ہوں تو مردوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے پھر خواتین کی صف بنے گی۔ بہت چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر گھر میں اُن کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو تو ایسے بچوں کو مناسب انتظامات کے ساتھ مسجد لانا چاہیے۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے مسجد میں شور و غل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا ماحول نہ پیدا ہو جائے کہ نماز ادا کرنے والے پریشان ہوتے رہیں۔ خواتین کی آواز نہایت پست ہونی چاہیے یہاں تک کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
التسبيح للرجال والتصفيق للنساء
”نماز میں ضرورت پیش آنے پر مردوں کے لیے سبحان الله کہنا اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔“
(صحیح البخاری و مسلم)
اسی طرح جماعت میں صفوں کی درستگی بھی نہایت ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سووا صفوفكم فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة
”اپنی صفیں برابر (درست) کرو اس لیے کہ صفوں کا برابر کرنا اقامت صلوٰة میں سے ہے۔“
(صحیح بخاری:723)
خواتین کو ٹولیوں کی صورت میں الگ الگ کھڑے ہونے کی بجائے ایک ساتھ مل کر صف بنانی چاہیے۔ جماعت کے ہوتے ہوئے الگ سے دوسری نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة
”جب تکبیر ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔“
(مسلم:710)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین مسجد میں جایا کرتی تھیں اور اسی طرح نماز ادا کیا کرتی تھیں جس طرح مرد نماز ادا کرتے تھے اس لیے تو انہیں مسجد میں آنے کے آداب سکھائے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ خواتین کو مسجد میں جانے سے روکنے کی بجائے جو شرائط بیان کی گئیں ہیں، وہ بتائی جائیں اور ان پر عمل کرایا جائے۔ اُن کے لیے وہ تمام سہولیات بہم پہنچائی جائیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے وہ اس اہم دینی فریضہ کو انجام دے سکیں۔ اگر خواتین مسجد میں آئیں گی، دین سیکھیں گی اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوں گی تو وہ اپنے بچوں کی بہتر انداز میں تربیت کر سکیں گی۔ جس سے ایک اچھا صاف ستھرا اور دینی معاشرہ معرض وجود میں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اُن تمام اعمال سے بچائے، جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے تمام اعمال کرانے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں رحمت و مغفرت الٰہی کا مستحق بنا دیں۔ (آمین)
وصلى الله وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين