سوال
قبل از وقت نماز پڑھنے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص لاعلمی کی بنا پر نماز کو اس کے مقررہ وقت سے پہلے ادا کر لے تو شرعی طور پر اس نماز کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ قرآنِ کریم کی واضح ہدایت ہے:
﴿إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا﴾
(سورة النساء: 103)
’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘
قرآن کی اس آیت سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے مقررہ وقت کی پابندی لازمی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نمازوں کے اوقات کی وضاحت فرمائی ہے:
«وَقْتُ الظُّهْرِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ»
(صحيح البخاري، المواقيت، باب وقت الظهر عند الزوال، ح: ۵۴۱، صحيح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس، ح: ۶۱۲ (۱۷۳))
’’ظہر کا وقت، جب سورج زائل ہو جائے…‘‘
یہ حدیث اس بات کو مزید مضبوطی سے بیان کرتی ہے کہ نماز کا وقت مقررہ حد کے اندر ہونا چاہیے۔ اگر کسی نے اس وقت سے پہلے نماز پڑھ لی، تو:
✿ اس کی فرض نماز ادا نہ ہوگی۔
✿ یہ نماز نفل شمار ہوگی، یعنی اسے نفل نماز کا ثواب ضرور ملے گا۔
✿ البتہ فرض نماز کو اس کے وقت پر دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب