کیا بے نمازی سے بیٹی کا نکاح جائز ہے؟ مکمل شرعی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال:

کیا بے نمازی کو بیٹی کا رشتہ دینا جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص کسی سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگے اور معلوم ہو کہ وہ نماز نہیں پڑھتا، تو اس مسئلے میں شریعت کی روشنی میں مکمل وضاحت ضروری ہے۔

باجماعت نماز نہ پڑھنے والا شخص:

◈ اگر رشتہ مانگنے والا فرد نماز باجماعت ادا نہیں کرتا، تو وہ فاسق، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔
◈ وہ مسلمانوں کے اس اجماع کے بھی خلاف ہے جس کے مطابق نماز باجماعت ادا کرنا سب سے افضل عبادت ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز باجماعت ایک ایسی عبادت ہے جس پر سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے، یہ سب سے بڑی اطاعت اور شعائر اسلام میں سب سے عظیم شعار ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ: ۲۲۲/۲۳)

◈ اگرچہ یہ شخص فاسق ہے، لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
◈ اس کے لیے کسی مسلمان عورت سے نکاح کرنا جائز ہے، البتہ دین و اخلاق کے حامل افراد اس سے بہتر ہیں، چاہے وہ مالی حیثیت یا نسب میں کم تر ہی کیوں نہ ہوں۔

دین اور اخلاق کو ترجیح:

حدیث شریف میں فرمایا گیا:

« إِذَا جَاءَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوْهُ  قَالُوْا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ وَاِنْ کَانَ فِيْهِ؟ قَالَ: اِذَا جَاءَ کُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ وَخُلُقَهُ فَانْکِحُوْهُ۔ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ»(جامع الترمذی، ح: ۱۰۸۵، سنن ابن ماجہ، ح: ۱۹۶۷)

ترجمہ:
"جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد پیدا ہو جائے گا۔”

نکاح کے اسباب:

حدیث میں فرمایا گیا:

«تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلَحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِيْنِهَا، فاَظْفَرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاکَ»(صحیح بخاری، ح: ۵۰۹۰، صحیح مسلم، ح: ۱۴۶۶)

ترجمہ:
"عورت سے نکاح چار وجوہات کی بنا پر کیا جاتا ہے: مال، حسب و نسب، حسن و جمال اور دین داری۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو، تمہاری کامیابی ہوگی۔”

قیامت کے دن سوال:

﴿وَيَومَ يُناديهِم فَيَقولُ ماذا أَجَبتُمُ المُرسَلينَ﴾ (القصص: 65)
’’اور جس روز (اللہ) ان کو بلائے گا اور کہے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا۔‘‘

﴿فَلَنَسـَٔلَنَّ الَّذينَ أُرسِلَ إِلَيهِم وَلَنَسـَٔلَنَّ المُرسَلينَ ﴿٦﴾ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيهِم بِعِلمٍ وَما كُنّا غائِبينَ ﴿٧﴾ (الأعراف: 6۔7)
’’تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے، پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘

مکمل طور پر نماز نہ پڑھنے والا شخص:

◈ اگر کوئی شخص بالکل نماز نہیں پڑھتا، نہ جماعت سے، نہ انفرادی طور پر، تو وہ کافر، مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
◈ ایسے شخص کو توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ سچی توبہ کر کے نماز شروع کرے تو اس کا اسلام قابل قبول ہوگا۔
◈ ورنہ وہ قتل کا مستحق ہے اور اسے غسل، کفن، جنازہ کے بغیر غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

قرآن سے دلائل:

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿59﴾ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا فَأُولـئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ وَلا يُظلَمونَ شَيـًٔا ﴿60﴾ (مريم: 59-60)

ترجمہ:
"پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے، سو وہ گمراہی میں مبتلا ہوں گے۔ ہاں، جس نے توبہ کی اور ایمان لایا…”

﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوةَ وَءاتَوُا الزَّكوةَ فَإِخونُكُم فِى الدّينِ﴾ (التوبة: 11)

ترجمہ:
"اگر وہ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔”

ترک نماز کا حکم:

﴿إِنَّمَا المُؤمِنونَ إِخوَةٌ فَأَصلِحوا بَينَ أَخَوَيكُم﴾ (الحجرات: 10)

’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘

◈ یہاں تک کہ قتال جیسے عمل سے بھی ایمانی اخوت ختم نہیں ہوتی، مگر نماز ترک کرنے سے ہوتی ہے۔

سنت سے دلائل:

«سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ»
(صحیح بخاری، ح: ۴۸، صحیح مسلم، ح: ۶۴)

ترجمہ:
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔”

«إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ»
(صحیح مسلم، ح: ۸۲)

ترجمہ:
"آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق صرف نماز چھوڑنے کا ہے۔”

«الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ»
(جامع الترمذی، ح: ۲۶۲۱، نسائی، ابن ماجہ)

ترجمہ:
"ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے، جس نے اسے ترک کیا وہ کافر ہو گیا۔”

صحابہ کرام کے اقوال:

◈ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

«لَا إِسْلَامَ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ»
(الترغيب والترهيب: ۱/۳۸۱)

ترجمہ:
"جس نے نماز ترک کی، اس کا اسلام نہیں۔”

◈ عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ نے فرمایا:

«كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ»
(جامع الترمذی)

ترجمہ:
"صحابہ کرام صرف نماز کے ترک کو کفر سمجھتے تھے، دوسرے اعمال کے ترک کو نہیں۔”

امام احمد اور ابن قیم رحمہما اللہ کے اقوال:

◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نماز کو حقیر جاننے والا اسلام کو حقیر جانتا ہے۔”

◈ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نماز کی فرضیت کا قائل ہو، وہ کبھی اسے ترک نہیں کرے گا۔ ترک نماز اس کے ایمان کے نہ ہونے کی دلیل ہے۔”

بے نماز سے نکاح کا حکم:

◈ جب یہ ثابت ہو گیا کہ ترک نماز کفر ہے، تو اس شخص کا مسلمان عورت سے نکاح ناجائز ہے۔
◈ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـتِ حَتّى يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم﴾(البقرہ: ۲۲۱)
’’اور (مومنو) مشرک عورتوں سے، جب تک وہ ایمان نہ لائیں، نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت، خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔‘‘

﴿فَإِن عَلِمتُموهُنَّ مُؤمِنـتٍ فَلا تَرجِعوهُنَّ إِلَى الكُفّارِ لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ…﴿١٠﴾ (الممتحنة: ۱۰)
’’سو اگر تم کو معلوم ہو کہ وہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کیونکہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لئے جائز ہیں۔‘‘

نکاح کا صحیح طریقہ:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ» (صحیح مسلم، ح: ۱۷۱۸)
"جس عمل پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے۔”

خلاصہ:

◈ اگر رشتہ مانگنے والا صرف باجماعت نماز نہیں پڑھتا تو وہ فاسق ہے، کافر نہیں، اس کے ساتھ نکاح جائز ہے مگر بہتر نہیں۔
◈ لیکن اگر وہ بالکل نماز نہیں پڑھتا تو وہ کافر ہے، اس کے ساتھ نکاح ناجائز ہے جب تک کہ سچی توبہ نہ کرے۔
◈ جو لوگ کہتے ہیں کہ "اللہ اسے ہدایت دے گا” تو مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے، ہم حال کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
حال میں اگر وہ بے نماز ہے تو اس سے نکاح جائز نہیں۔
ھذا ما عندی، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1