کیا حدیث کی صحت یا ضعف کا فیصلہ اجتہادی ہے؟ مکمل وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، توضیح الاحکام، جلد ۲، صفحہ ۲۹۳

حدیث کی صحت یا ضعف کا حکم کس بنیاد پر ہوتا ہے؟

سوال:

کیا کسی روایت کو صحیح، حسن یا ضعیف قرار دینا اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے؟
جیسا کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے اپنی کتاب "اختلاف امت اور صراط مستقیم” میں امام ابن تیمیہؒ کا حوالہ دیتے ہوئے اس نکتہ کو توثق فراہم کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ائمہ و محدثین کے درمیان اختلاف درحقیقت اجتہادی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یعنی ایک امام یا محدث کسی روایت کو صحیح قرار دیتا ہے تو دوسرا اسے ضعیف کہتا ہے، کوئی حسن کہتا ہے تو تیسرا اسے صحیح یا کسی اور درجے کا بتاتا ہے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روایات کی صحت یا ضعف کے بارے میں دو طرح کی احادیث پائی جاتی ہیں:

➊ ایسی روایات جن کی صحت یا ضعف پر اجماع ہے

حافظ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (متوفی ۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:

"واتفاق اهل الحدیث علی شی یکون حجة”
اور اہلِ حدیث (محدثین) کا کسی بات پر اتفاق کرنا حجت ہوتا ہے۔
کتاب المراسیل، ص۱۹۲، ت۷۰۳، ترجمہ: محمد بن مسلم الزہری

مزید توثیق:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحرانی رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:

"فاذا اجتمع اهل الفقه علی القول بحکم لم یکن الا حقا واذا اجتمع اهل الحدیث علی تصحیح حدیث لم یکن الا صدقا”
پس اگر فقہاء کسی قول پر اجماع کر لیں تو وہ بات حق ہی ہوتی ہے، اور اگر محدثین کسی حدیث کی صحت پر اجماع کریں تو وہ حدیث یقیناً سچی ہوتی ہے۔
مجموع فتاویٰ، ج1، ص9، 10

نتیجہ:

ایسی احادیث جن پر اجماع ہو، ان کا صحیح یا ضعیف ہونا اجتہادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اجماع کی پیروی ہے۔

➋ ایسی روایات جن کی صحت یا ضعف پر اختلاف ہے

ایسی صورت میں جمہور (اکثر) محدثین کی تحقیق کو ترجیح دینا اجتہادی مسئلہ ہوتا ہے۔

اہم نکتہ:

جو بھی اصول اختیار کیا جائے، اس پر عمل ضروری ہے۔ بصورت دیگر قول و فعل میں تضاد پیدا ہوتا ہے اور یہی تضاد نفاق کی علامت ہے۔

🔔 تنبیہ 1:

عبدالوہاب بن علی السبکی رحمہ اللہ (متوفی ۷۷۱ھ) فرماتے ہیں:

"ان عدد الجارح اذا کان اکثر قدم الجرح الجماعا”
بے شک اگر جرح کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو، تو اجماعاً جرح کو ترجیح دی جائے گی۔
قاعدۃ فی الجرح والتعدیل، ص۵۰

نتیجہ:

جس راوی کو جمہور محدثین نے مجروح قرار دیا ہو، وہ راوی متاخرین کے نزدیک بھی مجروح ہی سمجھا جاتا ہے۔

🔁 اجتہادی اختلاف کی حقیقت:

روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف اجتہادی ضرور ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی مسلک یا فقہی گروہ اپنی پسند کی روایت کو صحیح اور دوسروں کی روایت کو ضعیف کہہ کر بات ختم کر دے۔

🔹 صحیح طریقہ:

اس معاملے میں بھی وہی بات راجح اور معتبر ہے جس کی طرف ائمہ محدثین کی اکثریت ہو۔

🔔 تنبیہ 2:

کتاب "اختلاف امت اور صراط مستقیم” کے مؤلف کے ماننے والے بعض افراد ان احادیث کو بھی رد کر دیتے ہیں جو صحیحین کی تلقی بالقبول والی اجماعی احادیث میں شامل ہیں۔
ان افراد کی ترجیح اپنے اکابر کے اقوال و افعال کو دینا ہے، جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔
مثال کے طور پر دیکھیے:

ارشاد القاری، ص۴۱۲

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1