مرسل روایت کا حکم
سوال:
جمہور ائمہ محدثین مرسل روایت کو احکام و مسائل میں معتبر سمجھتے ہیں یا اسے ضعیف قرار دیتے ہیں؟ اور کیا جمہور محدثین میں محدثین احناف بھی شامل ہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرسل روایت کے بارے میں جمہور محدثین کا موقف:
جمہور محدثین کے نزدیک تابعی کی مرسل روایت ہر لحاظ سے مردود ہوتی ہے۔
◈ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری (متوفی ۲۶۱ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمرسل من الروایات فی اصل قولنا وقول اهل العلم بالاخبار لیس بحجة
(مقدمہ صحیح مسلم ج۱ ص۲۲ بعد ح۹۲، فتح الملہم ج۱ ص۴۱۰)
*مرسل روایت، ہمارے (محدثین) کے اصل قول اور دیگر اہل علم کے نزدیک حجت نہیں ہے۔*
◈ حافظ ابو الفضل عبدالرحیم بن الحسین العراقی (متوفی ۸۰۶ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا:
وردہ جماهیر النقاد للجهل بالساقط فی الاسناد
(الفیۃ العراقی مع فتح المغیث ج۱ ص۱۳۴)
*جمہور ناقدین حدیث نے مرسل روایت کو رد کر دیا ہے کیونکہ سند میں جو واسطہ ساقط ہوتا ہے، وہ مجہول ہوتا ہے۔*
◈ علامہ ابن الصلاح الشہرزوری (متوفی ۶۴۳ھ) لکھتے ہیں:
وما ذکرناه من سقوط الاحتجاج بالمرسل و الحکم بضعفه هو المذهب الذی استقر علیه آراء جماهیر حفاظ الحدیث ونقاد الاثر
(علوم الحدیث مع التقیید والایضاح ص۷۴، نسخہ محققہ ص۱۳۰)
*مرسل روایت سے حجت لینا ساقط ہے اور اسے ضعیف سمجھنا وہ مذہب ہے جس پر جمہور حفاظ و ناقدین حدیث کا اتفاق ہے۔*
◈ امام ترمذی (متوفی ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں:
والحدیث اذا کان مرسلا فانه لا یصح عند اکثر اهل الحدیث
(کتاب العلل ط دارالسلام ص۸۹۶، ۸۹۷، شرح علل الترمذی لابن رجب ۲۷۳/۱)
*مرسل حدیث اکثر اہلِ حدیث (جمہور محدثین) کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔*
◈ حافظ ابوبکر الخطیب البغدادی (متوفی ۴۶۳ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ذلک اکثر الائمة من حفاظ الحدیث و نقاد الاثر
(الکفایۃ فی علم الروایۃ ص۳۸۴)
*اس بات پر کہ مرسل روایت حجت نہیں، اکثر ائمہ حفاظ حدیث اور ناقدین حدیث کا اتفاق ہے۔*
◈ علامہ ابن خلفون الاندلسی (متوفی ۶۳۶ھ) اپنی کتاب ’’المتقی فی الرجال‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
ولا اختلاف اعلمه بینهم انه لا یجوز العمل بالمرسل اذا کان مرسله غیر متحرز یرسل عن غیر الثقات
(النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی ص۱۵۸)
*اگر ارسال کرنے والا محتاط نہ ہو اور غیر ثقہ راویوں سے روایت کرے تو مرسل پر عمل جائز نہیں، اور اس پر کوئی اختلاف معلوم نہیں۔*
◈ حافظ یحییٰ بن شرف النوی (متوفی ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:
ثم المرسل حدیث ضعیف عند جماهیر المحدثین و کثر من الفقهاء و اصحاب الاصول
(تقریب النووی مع تدریب الراوی ج۱ ص۱۹۸)
*مرسل حدیث جمہور محدثین، کثیر فقہاء اور اصولیین کے نزدیک ضعیف ہے۔*
بعض قدیم اقوال اور ان پر تبصرہ:
رسالہ ابی داود الی اھل مکۃ فی وصف سننہ میں آیا ہے:
واما المراسیل فقد کان یحتج بها العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری
(رسالہ ابی داود ص۲۵)
عبدالحئی لکھنوی حنفی (متوفی ۱۳۰۴ھ) نے اس کو یوں نقل کیا:
واما المراسیل فقد کان اکثر العلماء یحتجون بها فیما مضی مثل سفیان الثوری
(ظفر الامانی فی مختصر الجرجانی ص۳۸۴، ۳۸۵)
تنبیہ: رسالہ ابی داود کے اصل متن میں "اکثر العلماء” کا لفظ موجود نہیں۔
مزید دیکھیں: النکت لابن حجر (۵۶۸/۱)
حافظ زرکشی (متوفی ۷۹۴ھ) ایسی عبارات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وینبغی ان یکون مرادهم اکثر اهل الاصول
(النکت للزرکشی ص۱۵۶)
*مراد یہ ہونا چاہیے کہ اکثر اہل اصول و فقہ اس پر عمل کرتے تھے۔*
ابن جریر طبری کے حوالے سے منسوب ایک قول اور اس کا رد:
ابن جریر طبری کی طرف منسوب ایک مردود و باطل قول کے رد کے لیے ملاحظہ کریں:
النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للحافظ ابن حجر (۵۶۸/۱) وغیرہ
حافظ العلائی (متوفی ۷۶۱ھ) اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان دعوی الاجماع فی ذلک باطل قطعا
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص۶۸)
*مرسل کی حجیت پر اجماع کا دعویٰ یقینا باطل ہے۔*
خلاصہ:
◈ صحابہ کی مرسل روایات قطعی طور پر مقبول ہیں۔
◈ تابعین کی مرسل روایات جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و غیر مقبول ہیں۔
محدثین احناف کا موقف:
◈ امام ابوحنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ) کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں۔
حافظ طحاوی حنفی (متوفی ۳۲۱ھ) کے بیان کا خلاصہ:
*امام ابوحنیفہ مرسل (منقطع) روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔*
(شرح معانی الآثار ج۲ ص۱۶۴، کتاب السیر، باب الرجل یسلم فی دارالحرب و عندہ اکثر من اربع نسوۃ)
◈ حافظ طحاوی فرماتے ہیں:
وهم لا یحتجون بالمرسل
(معانی الآثار ۶/۲، کتاب النکاح، باب النکاح بغیر ولی عصبۃ)
*جمہور محدثین مرسل کو حجت نہیں مانتے۔*
◈ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی (متوفی ۴۶۳ھ) کا خلاصہ:
*حنفی و مالکی اہل علم مناظرات میں مرسل کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔*
(دیکھیں: المتہید ج۱ ص۷)
◈ ابن حزم الاندلسی (متوفی ۴۵۶ھ) نے ان لوگوں پر سخت رد کیا ہے جو مرسل کو حجت ماننے کے بعد خواہشاتِ نفس کے مطابق اس کو رد کر دیتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب