بے ہوش اور دیوانے پر شرعی احکام کا اطلاق
سوال:
کیا بے ہوش اور دیوانے افراد پر بھی شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں؟
اگر کسی شخص کی یادداشت ختم ہو جائے یا وہ بے ہوش ہو، تو کیا ایسے افراد کے لیے بھی شریعت کے احکام لازم ہوتے ہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے انسان پر عبادات کو اسی وقت فرض کیا ہے جب وہ ان عبادات کا مکلف ہو۔ یعنی انسان کے مکلف ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس میں عقل موجود ہو اور وہ صحیح ادراک رکھتا ہو۔
❀ بے عقل افراد: جن افراد میں عقل نہ ہو، ان پر شریعت کے احکام لازم نہیں ہوتے۔
❀ نابالغ بچے: اسی طرح وہ چھوٹے بچے جن میں نیکی اور بدی کی تمیز نہیں ہوتی، ان پر بھی احکامِ شریعت لاگو نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں۔
❀ کم عقل یا دیوانے افراد: وہ افراد جو مکمل طور پر دیوانے نہ ہوں لیکن عقل کی کمی کا شکار ہوں یا بڑے عمر کے افراد جن کی یادداشت ختم ہو چکی ہو، ان پر بھی نماز اور روزہ فرض نہیں ہے۔ کیونکہ یہ افراد اس بچے کی مانند ہوتے ہیں جو صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر سکتا۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے افراد پر عبادات جیسے کہ نماز، روزہ اور طہارت کے احکام واجب نہیں ہوتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت ہے۔
مالی واجبات کا حکم:
جہاں تک مالی واجبات (مثلاً زکوٰۃ) کا تعلق ہے تو وہ ان افراد کے مال سے ادا کرنا لازم ہے، خواہ ان کی یادداشت ختم ہو چکی ہو۔
❀ وجوبِ زکوٰۃ کا تعلق مال سے ہے نہ کہ شخص سے۔
❀ زکوٰۃ ایسے فرد کے مال میں واجب ہے اور اس کے ولی یا ذمہ دار پر لازم ہے کہ وہ اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ﴾
(التوبہ: 103)
’’ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرنے رہو گے۔‘‘
یہاں فرمایا گیا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾
"ان کے مال میں سے قبول کر لو”
یہ نہیں کہا گیا کہ "ان سے قبول کر لو”۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے وقت فرمایا تھا:
«فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ»
(صحیح البخاری، الزکاة، باب وجوب الزکاة، ح: ۱۳۹۵، صحیح مسلم، الإيمان، باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام، ح: ۱۹)
’’لہٰذا انہیں آگاہ کر دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔‘‘
پس مالی واجبات جیسے کہ زکوٰۃ، اس شخص پر سے ساقط نہیں ہوتیں جس کی یادداشت ختم ہو گئی ہو، کیونکہ ان کا تعلق عقل سے نہیں بلکہ مال سے ہے۔
بدنی عبادات کے احکام:
❀ نماز، روزہ اور طہارت جیسے احکام ایسے فرد پر واجب نہیں جس کی عقل ختم ہو گئی ہو۔
❀ اگر کسی کی عقل بیماری یا بے ہوشی کی حالت میں وقتی طور پر ختم ہو جائے تو اکثر علماء کے نزدیک اس پر بھی نماز واجب نہیں ہے۔
❀ مثلاً: اگر کوئی مریض ایک یا دو دن کے لیے بے ہوش رہے تو اس پر قضا لازم نہیں ہے، کیونکہ اس وقت اس کی عقل مفقود تھی۔
یہ فرد سوئے ہوئے شخص کے حکم میں نہیں آتا کیونکہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ نَامَ عَنْ صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا»
(صحیح البخاری، المواقيت، باب من نسی صلاة فليصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷، صحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة، ح: ۶۸۴ (۳۱۵)، واللفظ له)
’’جو شخص کوئی نماز سو کر رہ جائے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے جب یاد آئے، اسے پڑھ لے۔‘‘
❀ سوئے ہوئے شخص میں ادراک باقی ہوتا ہے، اگر اسے جگایا جائے تو وہ جاگ سکتا ہے۔
❀ لیکن بے ہوش شخص اگر جگایا جائے تو نہیں جاگتا، اس لیے اس پر نماز کی قضا لازم نہیں۔
قصداً بے ہوشی کی صورت:
❀ اگر بے ہوشی کسی سبب کی وجہ سے ہو، جیسے کہ نشہ آور چیز (مثلاً: بھنگ) استعمال کی ہو، تو ایسی صورت میں اس شخص پر نمازوں کی قضا لازم ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب