سوال
اگر تیسرے مہینے عورت کا حمل ساقط ہو جائے تو کیا وہ نماز ادا کرے گی یا یہ خون نفاس شمار ہوگا اور نماز ساقط ہو جائے گی؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے نزدیک یہ مسئلہ معروف اور واضح ہے کہ:
❀ اگر عورت کا حمل اس حالت میں ساقط ہو کہ جنین (بچہ) کی تخلیق واضح ہو چکی ہو، تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار کیا جائے گا۔
❀ ایسی حالت میں عورت نماز نہیں پڑھے گی کیونکہ نفاس کی حالت میں نماز معاف ہوتی ہے۔
جنین کی تخلیق کی مدت:
❀ علماء کے مطابق جنین میں تخلیق واضح ہونے کی مدت عام طور پر اکیاسی (81) دن کے بعد ہوتی ہے۔
❀ چونکہ یہ مدت تین ماہ سے کم ہے، لہٰذا:
➊ اگر عورت کو یقینی علم ہو کہ اس کا حمل تین ماہ (یا اس کے برابر 81 دن) کا ہو چکا تھا اور وہ ساقط ہو گیا ہے، تو:
✿ اس حالت میں خون نفاس کا خون ہوگا۔
✿ عورت اس دوران نماز نہیں پڑھے گی۔
➋ لیکن اگر حمل اس مدت سے پہلے ساقط ہوا ہو، تو:
✿ آنے والا خون نفاس نہیں بلکہ فاسد (غیر شرعی) خون شمار ہوگا۔
✿ ایسی حالت میں عورت نماز ادا کرے گی اور اسے ترک نہیں کرے گی۔
اگر مدت یاد نہ ہو:
❀ اگر عورت کو یقینی طور پر حمل کی مدت یاد نہ ہو تو:
✿ وہ اپنے حالات پر غور کرے اور سوچ بچار کے بعد ظنِ غالب (قوی گمان) کے مطابق فیصلہ کرے۔
✿ اگر غالب گمان یہ ہو کہ حمل 81 دن پورے نہیں ہوئے تھے، تو نماز پڑھے گی۔
✿ اور اگر غالب گمان یہ ہو کہ مدت پوری ہو چکی تھی، تو نماز ترک کرے گی کیونکہ وہ نفاس کی حالت میں شمار ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب