ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام
حیض کے معمول چھ دن میں کچھ دن کا اضافہ ہونے کی صورت میں حکم
سوال:
ایک عورت کا معمولی حیض چھ دن کا تھا، لیکن بعد میں اس کے حیض کی مدت میں اضافہ ہو گیا۔ کیا اس صورت میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی عورت کا حیض کا معمول چھ دن کا ہو اور بعد میں یہ مدت بڑھ کر نو، دس یا گیارہ دن تک ہو جائے، تو:
- جب تک اسے پاکی حاصل نہ ہو جائے، وہ نماز ادا نہیں کرے گی۔
- اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی مدت کے لیے کوئی خاص حد مقرر نہیں فرمائی۔
قرآن مجید کی واضح رہنمائی:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى﴾
… سورة البقرة: ٢٢٢
"اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دو وہ تو نجاست ہے۔”
اہم نکات:
- جب تک حیض کا خون جاری رہے گا, عورت حالت حیض میں سمجھی جائے گی۔
- جیسے ہی پاکی حاصل ہو جائے اور وہ غسل کر لے, تو نماز پڑھ سکتی ہے۔
- اگر اگلے مہینے میں حیض کی مدت کم ہو جائے، یعنی پہلے کی نسبت کم دنوں تک خون آئے, تو بھی جیسے ہی حیض ختم ہو، غسل کرے گی اور نماز شروع کر دے گی — چاہے یہ مدت اس کی پچھلی عادت کے مطابق نہ بھی ہو۔
- بنیادی اصول یہی ہے کہ:
- عورت کو حیض کے دوران نماز نہیں پڑھنی چاہیے،
- چاہے حیض کی مدت اس کی پچھلی عادت کے مطابق ہو یا زیادہ یا کم۔
- جب تک حیض کا خون جاری ہے، وہ نماز کی پابند نہیں؛ اور پاکی حاصل ہونے پر نماز ادا کرے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب