لین دین میں کمیشن لینے کا شرعی حکم
سوال:
ہمارے علاقے میں بلکہ پورے پاکستان میں پراپرٹی کا کاروبار بہت عام ہو چکا ہے۔ لوگ مشقت والے کام چھوڑ کر اس شعبے میں آ رہے ہیں کیونکہ اس میں بڑی منفعت ہے۔ بعض افراد ایک دن میں لاکھوں روپے کے مالک بن جاتے ہیں، چاہے وہ پہلے غریب ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن و سنت اور جدید مسائل کی روشنی میں اس کا حکم واضح فرمائیں۔ میں ایک سال سے ماہنامہ الحدیث کا قاری ہوں۔ اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے کیونکہ دشواری کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کمیشن کا لین دین، جسے عرف عام میں "دلالی” یا "ایجنٹ فیس” کہا جاتا ہے، شریعت میں سمسری (السمسرة) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شریعت مطہرہ میں دلالی کے متعلق دو اقوال ملتے ہیں:
دلالی کا پہلا موقف: جواز کی صورت
اگر دونوں فریقین (یعنی خریدار اور فروخت کنندہ) باہمی رضامندی سے معاملہ کریں، اور اس میں کسی قسم کا دھوکہ، فریب یا جھوٹ شامل نہ ہو، تو دلالی جائز ہے۔
حدیث شریف:
سیدنا قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«کنا نسمی السماسرة علی عهد رسول الله صلی الله علیه وسلم فاتا نا و نحن بالبقیع و معنا العصی فسمانا باسم هو اسحن منه فقال:«یا معشر التجار……»
*ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دلال کہا جاتا تھا۔ ایک دن آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم بقیع میں اپنی رسیوں کے ساتھ (تجارت میں مشغول) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دلال کی بجائے بہتر نام سے مخاطب فرمایا اور کہا: "اے تاجرو!”*
(مسند الحمیدی بتحقیقی قلمی ج۱ ص۳۰۴ ح۴۳۸ و سندہ صحیح، و نسخہ حسین سلیم اسد ج۱ ص۴۰۵ ح۴۴۲)
یہی روایت دیگر کتب حدیث میں بھی مختلف اسانید سے مروی ہے، جیسے:
✿ سنن ابی داود (حدیث ۳۳۲۶)
✿ سنن الترمذی (حدیث ۱۲۰۸ وقال: حسن صحیح)
✿ سنن النسائی (حدیث ۳۸۲۸، ۳۸۲۹)
✿ سنن ابن ماجہ (حدیث ۲۱۴۵)
✿ منتقی ابن الجارود (حدیث ۵۵۷)
✿ مستدرک الحاکم (۵/۲ و صححہ ووافقہ الذہبی)
✿ مشکل الآثار للطحاوی (۱۳/۳، ۱۴)
اس روایت سے دلالی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
لغوی تشریح:
عربی لغت میں "السمسرة” کا مطلب ہے:
"دلالی، ایجنٹ گری، کمیشن اور دلالی کی اجرت”
(القاموس الوحید، ص۸۰۰)
مزید حوالہ:
صحیح بخاری، کتاب الاجارہ، باب اجر السمسرۃ، حدیث نمبر: ۲۲۷۴
دلالی کا دوسرا موقف: ممانعت کی صورت
دوسرا موقف دلالی کی ممانعت پر مبنی ہے، جو اس وقت لاگو ہوتا ہے جب دلالی میں ناجائز فائدہ، دھوکہ یا اجارہ داری پائی جائے۔
حدیث شریف:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا یبع حاضر لباد»
*کوئی شہری کسی دیہاتی کا مالِ تجارت نہ بیچے*
(صحیح بخاری: حدیث ۲۷۲۳، صحیح مسلم: ۱۵۱۵/۱۱)
تشریح:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ "حاضر لباد” کا مطلب کیا ہے؟
انہوں نے فرمایا:
"لایکون له سمسارا”
*یعنی وہ اس کا دلال نہ بنے*
(مصنف عبدالرزاق ج۸ ص۱۹۸ ح ۱۴۸۷۰ و سندہ صحیح، مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ ص۵۷۸ ح۲۲۰۵۸)
یہ روایت دلالی کی ممنوع صورت کو ظاہر کرتی ہے۔
دونوں احادیث کی روشنی میں شرعی موقف
مندرجہ بالا دونوں احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل موقف اخذ کیا جا سکتا ہے:
✿ اگر دلالی میں دھوکہ، فریب، جھوٹ اور دھونس نہ ہو، اور
✿ باہمی رضامندی اور خیر خواہی موجود ہو،
تو ایسی دلالی جائز ہے، مگر بعض اہلِ علم کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
لیکن اگر دلالی میں
✿ جھوٹ،
✿ فراڈ،
✿ ناجائز کمیشن،
✿ مصنوعی نرخ بڑھانا
شامل ہو تو ایسی دلالی حرام اور ناجائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب