نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق رکھنا
سوال
کیا ایک ہی چیز کی نقد اور اُدھار کی الگ الگ قیمتیں مقرر کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راقم الحروف کی رائے کے مطابق نقد اور اُدھار میں فرق کرنا سود اور ناجائز ہے۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:
◈ شہادت جولائی ۲۰۰۳ء، جلد ۱۰، شمارہ ۷
◈ شہادت، جلد ۶، شمارہ ۵، صفحہ ۳۰، مئی ۱۹۹۹ء
اگرچہ بعض علماء کرام اس عمل کو جائز سمجھتے ہیں، تاہم درست اور راجح بات یہی ہے کہ یہ بیع ناجائز اور سود ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کا قول
امام بیہقی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
’’اخبرنا ابو عبدالله الحافظ و ابو سعید بن ابی عمرو قالا: ثنا ابو العباس محمد بن یعقوب: ثنا ابراهیم بن منقد: حدثنی ادریس بن یحیی عن عبداللہ بن عیاش قال: حدثنی یزید بن ابی حبیب عن ابی مرزوق التجیبی عن فضالة بن عبید صاحب النبی صلی الله علیه وسلم انه قال:
کل قرض جو منفعة فهو وجه من وجوہ الربا / موقوف‘‘
ترجمہ: ہر وہ قرض جو نفع کا باعث بنے، وہ سود کی ایک قسم ہے۔
یہ روایت موقوف ہے، یعنی صحابی کا قول ہے۔
(السنن الکبریٰ ۳۵۰/۵)
روایت کی سند
اس روایت کی سند صحیح یا حسن لذاتہ ہے۔
مزید ملاحظہ کریں:
◈ بلوغ المرام بتحقیقی (۷۲۶)
◈ واخطا من ضعفہ (یعنی جس نے اس روایت کو ضعیف کہا، اس نے غلطی کی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب