ضرورت سے زائد پانی اور جس میں دھوکہ ہو اس کی تجارت جائز نہیں
➊ حضرت ایاس بن عبد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع فضل الماء
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت سے زائد پانی کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے ۔ “
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2007 ، ابو داود: 3478 ، كتاب البيوع: باب فى بيع فضل الماء ، ترمذي: 1271 ، نسائي: 307/7 ، نیهقى: 15/6 ، أحمد: 132/2]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله عن بيع فضل الماء
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت سے زائد پانی کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔“
[مسلم: 1565 ، ابن ماجة: 2477 ، أحمد: 356/3 ، ابن الجارود: 595 ، حاكم: 44/2 ، بيهقى: 15/6]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں حدیث مروی ہے ۔
لا يمنع فضل الماء ليمنع به فضل الكلأ
”زائد پانی سے نہ روکا جائے تا کہ اس کے ذریعے زائد گھاس سے بھی روکا جائے۔“
اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا يباع فضل لماء ليباع به الكلا
”زائد پانی فروخت نہ کیا جائے تاکہ اس کے ساتھ گھاس بھی فروخت کی جائے ۔“
[بخاري: 2353 ، مسلم: 1566]
وہ حدیث جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا:
من يشترى بئر رومة فيوسع بها على المسلمين وله الجنة
”کون بئر رومہ خرید کر اس کے ذریعے مسلمانوں پر فراخی کرے گا اور اسے جنت بھی ملے گی ۔“
تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کنواں اس یہودی سے خرید کر کہ جو اس کا پانی فروخت کیا کرتا تھا مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔“
[بخاري: 2778 ، ترمذي: 3699 ، نسائي: 236/6]
بظاہر گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ یہ ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں جب سلام کے احکام مقرر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی خرید و فروخت کو حرام قرار دے دیا۔
[نيل الأوطار: 514/3 – 515]
◈ یاد رہے کہ زائد پانی فروخت کرنے کی ممانعت ہے۔ اپنی ملکیت کی جگہ فروخت کرنے کی ممانعت نہیں ہے اس لیے اگر کوئی اپنا کنواں وغیرہ فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
دھوکے کی بیع سے مراد ایسی بیع ہے جس کا انجام معلوم نہ ہو ۔ اس خیال کی وجہ سے کہ پتہ نہیں ایسا ہو گا کہ نہیں ہو گا مثلاً بھاگے ہوئے غلام کی بیع ، ہوا میں پرندے کی بیع ، پانی میں مچھلی کی بیچ اور غائب و مجہول چیز کی بیع وغیرہ۔
[تحفة الأحوذى: 483/4]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن بيع الغرر
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ۔“
[مسلم: 1513 ، كتاب البيوع: باب بطلان بيع الحصاۃ ، ابو داود: 3376 ، ترمذي: 1230 ، نسائي: 262/7 ، ابن ماجة: 2194 ، أحمد: 276/2 ، دارمي: 251/2 ، ابن الجارود: 59 ، دارقطني: 15/3 ، بيهقي: 266/5 ، شرح السنة: 297/4]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشتروا السمك فى الماء فإنه غرر
”مچھلی کو پانی میں مت خریدو کیونکہ یہ دھوکہ ہے۔“
[ضعيف: ضعيف الجامع الصغير: 6231 ، أحمد: 388/1]
(نوویؒ) دھوکے کی تجارت سے ممانعت کتاب البیوع کے اصول میں سے ایک عظیم اصل ہے اور اس میں اَن گنت مسائل ہیں مثلاً بھاگے ہوئے غلام کو فروخت کرنا ، معدوم و مجہول شے کی بیع ، جسے انسان کسی کے سپرد کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو (اس کی بیع) ، وہ چیز جسے فروخت کرنے والا اس پر مکمل ملکیت نہ رکھتا ہو (اس کی بیع) ، کثیر پانی میں موجود مچھلی کی بیع ، جانور کے تھنوں میں موجود دودھ کی بیع ، پیٹ میں موجود جنین (یعنی پیٹ کے بچے) کی بیع ، مبہم یعنی غیر واضح غلے کے انبار و ڈھیر میں سے بعض حصے کی بیع ، بہت زیادہ کپڑوں میں سے کسی ایک کپڑے کی بیع اور بہت سی بکریوں میں سے کسی ایک بکری کی بیع وغیرہ۔ ایسی ہی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس قسم کی ہر بیع باطل ہے کیونکہ اس میں بلا ضرورت دھوکہ پایا جاتا ہے۔
[شرح مسلم: 416/5]
◈ جن اشیا میں تھوڑا بہت دھوکہ ہو ان کے جواز پر اجماع ہے مثلا گھر ، جانور اور کپڑے وغیرہ کو ایک مہینے کے لیے اجرت پر دینا جائز ہے اگرچہ (اس میں یہ دھو کہ موجود ہے کہ ) مہینہ کبھی تیسں (30) دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس (29) دن کا۔ اور اسی طرح اجرت دے کر حمام میں داخل ہونے کے جواز پر بھی اجماع ہے اگرچہ (اس میں بھی یہ دھوکہ ہے کہ ) لوگ پانی استعمال کرنے کے لحاظ سے مختلف ہیں (یعنی کوئی کم استعمال کرتا ہے اور کوئی زیادہ ) ۔
[تحفة الأحوذى: 483/4]