کیا جنبی آدمی قرآن کو چھو سکتا ہے؟
سوال:
ایک شخص جو مدرس ہے اور شاگردوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتا ہے، اگر اسے مدرسہ یا آس پاس کے علاقوں میں پانی میسر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ کیونکہ قرآن مجید کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، تو ایسی حالت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر مدرسہ میں یا اس کے آس پاس پانی موجود نہ ہو تو مدرس کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو پہلے سے متنبہ کر دے کہ وہ وضو کرکے آیا کریں، کیونکہ قرآن مجید کو صرف پاک شخص ہی چھو سکتا ہے۔
حدیث کی روشنی میں:
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تحریر فرمایا:
«اَنْ لاَّ يَمَسَّ الْقُرْآنَ اِلاَّ طَاهِرٌ»
سنن الدارمي، کتاب الطلاق، باب ۳، والنسائي (۵۷۱۸)
یعنی: "قرآن کو صرف طاہر (پاک) شخص ہی ہاتھ لگائے۔”
یہاں "طاہر” سے مراد وہ شخص ہے جو حالتِ ناپاکی سے پاک ہو چکا ہو۔
قرآن مجید کی آیت کی وضاحت:
وضو، غسل اور تیمم سے متعلق آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ما يُريدُ اللَّهُ لِيَجعَلَ عَلَيكُم مِن حَرَجٍ وَلـكِن يُريدُ لِيُطَهِّرَكُم وَلِيُتِمَّ نِعمَتَهُ عَلَيكُم لَعَلَّكُم تَشكُرونَ﴾
سورة المائدة: 6
ترجمہ: "اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم شکر ادا کرو۔”
اس آیت میں "کہ تمہیں پاک کرے” کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ طہارت حاصل کرنے سے پہلے انسان طاہر نہیں ہوتا۔ اس بنا پر، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر وضو کیے، یعنی طہارت حاصل کیے بغیر قرآن مجید کو ہاتھ لگائے۔
بچوں کے بارے میں رخصت:
اگرچہ بعض علماء نے چھوٹے بچوں کو اس مسئلے میں رخصت دی ہے کہ وہ قرآن کو ہاتھ لگا سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ:
◈ انہیں قرآن مجید سے بار بار واسطہ پڑتا ہے۔
◈ وہ وضو کا مکمل شعور نہیں رکھتے۔
لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ:
◈ طلبہ کو بھی وضو کی تلقین کی جائے تاکہ وہ پاکی کی حالت میں قرآن کریم کو ہاتھ لگائیں۔
آیت ﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ﴾ کی وضاحت:
سائل نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے:
﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ﴾
یعنی: "اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔”
یہ آیت درحقیقت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا منع ہے، کیونکہ:
◈ "کتاب مکنون” سے مراد لوح محفوظ ہے۔
◈ "المطہرون” سے مراد فرشتے ہیں۔
اگر یہاں مراد طہارت حاصل کرنے والے انسان ہوتے تو عربی زبان کے قواعد کے مطابق الفاظ "مُطَهِّرُون” یا "مُتَطَهِّرُونَ” استعمال ہوتے۔
لہٰذا، اس آیت کو قرآن کو ہاتھ لگانے کے مسئلے پر دلیل کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ، وہ حدیث جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے:
«اَنْ لاَّ يَمَسَّ الْقُرْآنَ اِلاَّ طَاهِرٌ»
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب