سوال
کیا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بات یہی ہے کہ محض عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، الا یہ کہ اس چھونے کے نتیجے میں کچھ خارج ہو۔ اس مسئلے کی بنیاد درج ذیل نکات پر ہے:
نبی کریم ﷺ کی سنت سے دلیل:
❀ ایک صحیح حدیث میں یہ بات مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض ازواج مطہرات کو بوسہ دیا اور پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے لیکن وضو نہیں کیا۔
اصولی قاعدہ:
❀ اصل یہ ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا، جب تک کہ کسی صحیح اور صریح شرعی دلیل سے اس کے ٹوٹنے کا ثبوت نہ ملے۔
❀ جب بندہ شرعی دلیل کے مطابق طہارت حاصل کر لیتا ہے، تو اس کو ختم بھی شرعی دلیل ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
قرآن کی آیت سے اشکال اور اس کا جواب:
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿أَو لـمَستُمُ النِّساءَ﴾
(سورة المائدة: 6)
"یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو۔”
تو اس کے جواب میں درج ذیل باتیں پیش کی جاتی ہیں:
1. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر:
❀ اس آیت مبارکہ میں "چھونا” سے مراد ہمبستری ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
2. طہارت کی تقسیم:
❀ اس آیت میں طہارت کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
◈ اصلی طہارت (پانی کے ساتھ)
◈ بدلی طہارت (تیمم)
❀ ان دونوں اقسام میں بھی مزید تقسیم ہے:
◈ طہارتِ صغریٰ (وضو)
◈ طہارتِ کبریٰ (غسل)
قرآن پاک کی تفصیل:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ﴾
(سورة المائدة: 6)
"مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو، سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔”
❀ یہ ہے پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت (یعنی وضو)۔
﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا﴾
"اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔”
❀ یہ ہے پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت (یعنی غسل)۔
﴿وَإِن كُنتُم مَرضى أَو عَلى سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا﴾
(سورة المائدة: 6)
"اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی بیت الخلا سے آیا ہو یا عورتوں سے ہمبستر ہوا ہو، اور تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کر لو۔”
اس آیت سے تین نکات اخذ ہوتے ہیں:
➊ تیمم یہاں بدل طہارت ہے۔
➋ ﴿أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ﴾ — یہ سببِ صغریٰ کا بیان ہے۔
➌ ﴿أَو لـمَستُمُ النِّساءَ﴾ — یہ سببِ کبریٰ کا بیان ہے۔
❀ اگر "لَمس” (چھونا) کا مطلب صرف ہاتھ لگانا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے طہارتِ صغریٰ کے دو اسباب ذکر کیے اور طہارت کبریٰ کو ذکر نہیں کیا، حالانکہ قرآن میں صاف طور پر فرمایا گیا ہے:
﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا﴾
❀ اس لیے یہ بات قرآن کی بلاغت کے بھی خلاف ہوگی کہ کبریٰ طہارت کو نظرانداز کر دیا جائے۔
❀ نتیجتاً، اس آیت میں "عورت کو چھونا” سے مراد ہمبستری ہی ہے۔
طہارت کے اسباب کی وضاحت:
◈ طہارت صغریٰ — صرف چار اعضاء پر مشتمل (چہرہ، ہاتھ، سر، پاؤں)
◈ طہارت کبریٰ — پورے بدن کی طہارت
◈ تیمم (جو بدل ہے) — صرف دو اعضاء پر مشتمل (چہرہ اور ہاتھ)
نتیجہ:
لہٰذا، راجح قول یہی ہے کہ:
❀ عورت کو محض چھونے سے، چاہے شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے، وضو نہیں ٹوٹتا۔
❀ الّا یہ کہ چھونے کے نتیجے میں کوئی چیز خارج ہو جائے:
◈ اگر منی خارج ہو جائے تو غسل واجب ہے۔
◈ اگر مذی خارج ہو تو آلہ تناسل اور خصیتین کو دھونا اور وضو کرنا واجب ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب