وضو کو توڑنے والی تین بنیادی چیزیں – مکمل دلائل کے ساتھ
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

نواقض وضو کا بیان

وضو کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضو کو توڑنے والی چیزوں کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ہم یہاں صرف ان امور کو بیان کریں گے جن کی دلیل شرعی دلائل سے ثابت ہے۔

➊ وہ تمام چیزیں جو قبل یا دبر سے خارج ہوں

◈ ہر وہ چیز جو انسان کے اگلے یا پچھلے مقام (قبل یا دبر) سے خارج ہو، وہ وضو کو توڑ دیتی ہے۔

◈ ان میں پیشاب، پاخانہ، مذی، منی، ہوا یا گیس وغیرہ شامل ہیں۔

◈ جو چیز بھی ان دونوں مقامات میں سے خارج ہو، وہ ناقض وضو ہے۔ یہ ایک قطعی اور واضح مسئلہ ہے جس کے لیے تفصیل سے سوال کی ضرورت نہیں۔

وضاحت:

◈ اگر خارج ہونے والی چیز "منی” ہو اور شہوت کے ساتھ خارج ہو تو غسل فرض ہو جاتا ہے۔

◈ اگر "مذی” خارج ہو تو عضو تناسل اور خصیتین کو دھونا اور وضو کرنا واجب ہوتا ہے۔

➋ گہری نیند

◈ وہ نیند جس میں انسان کو اپنے وضو ٹوٹنے کا احساس نہ ہو، ناقض وضو ہے۔

◈ لیکن اگر نیند اتنی ہلکی ہو کہ اگر بے وضو ہو جائے تو اسے فوراً پتہ چل جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔

مزید وضاحت:

◈ نیند کی حالت خواہ لیٹ کر ہو یا بیٹھ کر، ٹیک لگا کر ہو یا بغیر ٹیک کے، فرق نہیں پڑتا۔

◈ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ نیند میں حضورِ قلب باقی ہو یا نہیں۔

◈ اگر انسان ایسی نیند میں ہو کہ وضو ٹوٹنے پر اسے خبر نہ ہو، تو وضو لازم ہو جاتا ہے۔

◈ یہ اس بنیاد پر ہے کہ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں ہے، بلکہ اس کے دوران وضو کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

◈ اگر نیند بذات خود ناقض وضو ہوتی تو ہلکی یا گہری ہر نیند سے وضو ٹوٹ جاتا، جیسا کہ پیشاب کی مقدار کم ہو یا زیادہ، وضو بہرحال ٹوٹ جاتا ہے۔

➌ اونٹ یا اونٹنی کا گوشت کھانا

◈ جو شخص اونٹ کا گوشت کھائے، اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، چاہے گوشت کچا ہو یا پکا ہوا۔

دلیل:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«اَنّه سئلَ النبیِ أَ نَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: اِنْ شِئْتَْٔ فقَالَ: انَٔتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْاِبِلِ؟ قَالَ: نَعَمْ،ِ»
(صحيح مسلم، الحيض، باب الوضوء من لحوحم الابل، ح:۳۵۶۰)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا بکری کے گوشت سے وضو کرنا ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو کر لو، اگر نہ چاہو تو نہ کرو۔ پوچھا گیا: اونٹ کے گوشت سے وضو کرنا ہے؟ فرمایا: ہاں، اونٹ کے گوشت سے وضو کرو۔‘‘

اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

◈ بکری کے گوشت سے وضو اختیاری ہے لیکن اونٹ کے گوشت سے وضو کرنا واجب ہے۔

◈ اس حکم میں گوشت کی حالت (کچا یا پکا)، رنگ (سرخ یا غیر سرخ) یا جسم کے کسی مخصوص عضو کا کوئی فرق نہیں۔

◈ نبی کریم ﷺ نے کسی قسم کی تفریق نہیں فرمائی، حالانکہ آپ کو علم تھا کہ لوگ اونٹ کے مختلف حصے کھاتے ہیں۔

◈ اگر کچھ اعضا کا حکم مختلف ہوتا تو نبی کریم ﷺ ضرور وضاحت فرماتے تاکہ امت کو اس بارے میں بصیرت حاصل ہو۔

◈ اسلامی شریعت میں کسی جانور کے بعض اعضاء کے حلال اور بعض کے حرام ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ فرق صرف یہودی شریعت میں پایا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَعَلَى الَّذينَ هادوا حَرَّمنا كُلَّ ذى ظُفُرٍ وَمِنَ البَقَرِ وَالغَنَمِ حَرَّمنا عَلَيهِم شُحومَهُما إِلّا ما حَمَلَت ظُهورُهُما أَوِ الحَوايا أَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ﴾ … سورة الأنعام: 146

’’اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے اور گایوں اور بکریوں کی چربی ان پر حرام کر دی تھی، سوائے اس کے جو ان کی پیٹھ پر ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی سے ملی ہو۔‘‘

اسی اصول کی روشنی میں:

◈ علماء کا اجماع ہے کہ خنزیر کی چربی بھی حرام ہے، اگرچہ قرآن میں صرف گوشت کا ذکر ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ﴾ … سورة المائدة: 3

’’تم پر مرا ہوا جانور، (بہتا) لہو، سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، سب حرام ہیں۔‘‘

◈ خنزیر کی چربی کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے، اسی اصول پر اونٹ کے گوشت سے وضو کے وجوب پر بھی ہم کہتے ہیں کہ اونٹ کی چربی، انتڑیاں اور دیگر اعضا بھی شامل ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1