کیا نقد و ادھار میں فرق کے ساتھ بیع جائز ہے؟ شرعی وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد: ۲، صفحہ: ۲۱۸

نقد اور ادھار میں فرق – شرعی حکم

سوال:

میری ملکیت میں ایک موٹر سائیکل ہے جسے میں نے ساٹھ ہزار (60,000) روپے نقد میں خریدا تھا۔ اب میں وہی موٹر سائیکل دس مہینے کی ادھاری مدت پر پچانوے ہزار (95,000) روپے میں فروخت کرنا چاہتا ہوں، اور خریدار بھی اس معاملے پر راضی ہے۔ اس صورت میں میرا منافع پینتیس ہزار (35,000) روپے بنتا ہے۔ کیا اس طرح کی تجارت اسلام میں جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی رہنمائی:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"نهی رسول الله صلی الله علیه وسلم عن بیعتین فی بیعة”
(سنن ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج۲ ص۲۳۵ ح۱۲۳۱، وقال: ’’حدیث حسن صحیح‘‘، سنن نسائی ج۷ ص۲۹۵، ۶۹۶ ح۶۴۳۶)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایک سودا میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔

یہ حدیث سنداً حسن لذاتہ ہے۔ اسے ابن حبان (الموارد: ۱۱۰۹) اور ابن الجارود (۶۰۰) نے صحیح قرار دیا ہے۔ بغوی نے بھی اسے "حسن صحیح” کہا ہے۔ (شرح السنۃ ج۸ ص۱۴۲ ح۲۱۱۱)

حدیث کی تشریح:

امام ترمذی، محدث بغوی اور دیگر علماء نے اس حدیث کی وضاحت بیان کی ہے۔ اس حدیث کے راوی عبدالوہاب بن عطاء فرماتے ہیں:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کہے: "میں تجھے یہ چیز نقد دس کی اور ادھار بیس کی دیتا ہوں۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج۵ ص۳۴۳، و سندہ حسن)

یہی رائے قاضی شریح اور اہل لغت میں خطابی، ابن قتیبہ کی ہے۔ محدثین میں امام نسائی اور ابن حبان بھی اسی بات کو درست سمجھتے ہیں۔

مزید دلیل:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

ایک سودا میں دو سودے کرنے کو سود قرار دیا گیا ہے۔
(مسند احمد ج۱ ص۳۹۳)

یہ حدیث سنداً حسن ہے، اور ابن حبان نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ (الموارد: ۱۱۱۱، ۱۱۱۲)

اسی مفہوم کی تشریح حدیث کے راوی سماک بن حرب نے بھی کی ہے، جو عبدالوہاب بن عطاء کی بیان کردہ وضاحت سے ملتی ہے۔
(السنۃ للمروزی ص۵۴، مسند احمد ج۱ ص۳۹۸)

نتیجہ:

ان دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نقد اور ادھار کی مختلف قیمتوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں سودا کرنا (یعنی ایک سودا میں دو قیمتوں کا اختیار دینا) شرعاً جائز نہیں۔

اہم تنبیہ:

مولانا عبدالرحمن کیلانی کی بہترین تصنیف
"تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام” (ص۱۱۱، ۱۱۲) میں اس مسئلے کی مزید تفصیل موجود ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ طاہر القادری (بریلوی) نے اپنی کتاب
"بلاسود بنکاری (عبوری خاکہ)” (ص۷۹) میں "حیلہ اسقاط ربا” کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے، جو سود کو "جائز” قرار دینے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

اسی کتاب کے ایک اور باب میں، جس کی سرخی ہے:
"دس کا نوٹ سال کے وعدے پر بارہ روپے میں بیچنا”،
انہوں نے اپنے پیش رو احمد رضا خان بریلوی سے نقل کیا ہے کہ:

"اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ روپے میں بیچ دے تو جائز ہے.”
(ص۱۰۰)

انا لله و انا الیه راجعون

خلاصہ:

✿ اگر نقد اور ادھار کی قیمت واضح طور پر الگ الگ بیان کر کے فیصلہ نہ کیا جائے تو یہ سودا جائز نہیں۔
✿ تاہم، اگر ابتداء میں ہی قیمت طے کر لی جائے، خواہ وہ نقد ہو یا ادھار (یعنی سودے کی قیمت اور شرائط میں کوئی ابہام نہ ہو)، تو سودا جائز ہو سکتا ہے۔
✿ شریعت میں نفع کے لئے کوئی خاص حد مقرر نہیں کی گئی، بشرطیکہ ادھار میں قیمت بڑھا کر خریدار کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1