سودی بنک میں ملازمت کا شرعی حکم اور اسلامی دلائل
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد: 2، صفحہ: 217

موجودہ بنکاری نظام اور اس میں ملازمت کا شرعی حکم

سوال:

موجودہ بنکاری نظام جو سود (ربا) پر مبنی ہے، اس میں کام کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر اس میں ملازمت جائز نہیں، تو پھر بنکاری نظام کیسے چلے گا؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موجودہ دور کا بنکاری نظام سود (ربا) پر قائم ہے، اور شریعتِ اسلامیہ کی رو سے سود لینا اور دینا دونوں سخت ممنوع اور حرام ہیں۔ اس بنیاد پر ایسے نظام میں ملازمت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

شرعی دلیل:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

"لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آكل الربا و موكله و کاتبه و شاهدیه وقال: «هم سواء»”
(صحیح مسلم: ۱۵۹۸)

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں سب پر لعنت فرمائی، اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

قرآن مجید سے دلیل:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾
(المائدہ:۲)

ترجمہ: "گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔”

یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ سودی نظام کا حصہ بن کر اس کی تقویت کرنا جائز نہیں ہے۔

نتیجہ:

لہٰذا سودی بنکاری نظام میں ملازمت کرنا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ اس میں انسان خود کو ایک ایسے عمل کا حصہ بناتا ہے جس پر لعنت کی گئی ہے اور جس سے تعاون کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1