سود پر قرض لینا حلال نہیں: شرعی دلائل کے ساتھ ردّ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 215

حرمتِ سود – شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت

سوال:

ایک سائل نے محمد رفیع مفتی صاحب سے دریافت کیا:

"ہمارے ملک میں جو بھی کاروبار کیا جائے، اس کے لئے بنک سے سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔ کیا سود دینا بھی اسلام میں اسی طرح ممنوع ہے جیسے کہ سود لینا؟”

محمد رفیع مفتی صاحب کا جواب:

ماہنامہ اشراق لاہور، اپریل ۲۰۰۷ء

محمد رفیع صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہا:

"بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا جائز ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ شریعت نے سود کھانے یعنی سود لینے سے منع کیا ہے، سود دینے سے نہیں۔ حدیث میں سود کھلانے والے کو بھی سود لینے والے ہی کی طرح مجرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ سود کھلانے والا کون ہے؟ بعض علما نے سود دینے والے ہی کو سود کھلانے والا قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ سود کھلانے والا دراصل وہ ایجنٹ ہے، جو سود خور کے لئے گاہک لاتا، اس کی نمائندگی کرتا اور اس کے سودی نظام کو چلاتا ہے۔”

تنقیدی تبصرہ:

یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ:

✿ سود خور کے لیے گاہک لانے والا اور سودی نظام کو چلانے والا حدیث کی نظر میں مجرم قرار دیا گیا۔
✿ لیکن وہ شخص جو براہ راست سود پر قرض دے رہا ہے (یعنی سود خور خود)، اس کے عمل کو "حلال” قرار دینا قابلِ فہم نہیں۔

اسی الجھن کے پیش نظر سوال کرنے والے نے دریافت کیا کہ کیا رفیع صاحب کا فتویٰ درست ہے؟

جواب (دلائل اور احادیث کی روشنی میں):

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محمد رفیع صاحب کا یہ بیان:

"شریعت نے سود کھانے یعنی سود لینے سے منع کیا ہے، سود دینے سے نہیں۔”

یہ بات شرعی طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ اگر شریعت نے صرف سود لینے سے منع کیا ہے تو پھر رفیع صاحب کا یہ فتویٰ کہ:

"بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا جائز ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔”

یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:

«لعن الله اکل الربا و موکله و شاهده و کاتبه»
"اللہ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کے گواہ اور لکھنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔”
(مسند احمد ج1، ص393، حدیث 3725، و سندہ صحیح)

یہ حدیث متن اور سند دونوں اعتبار سے صحیح ہے۔ اس میں سماک بن حرب پر جو جرح کی جاتی ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے۔

ماہنامہ الحدیث: شمارہ 22، صفحات 17 تا 23

دیگر محدثین کی تصدیق:

امام ترمذی (حدیث 1206) اور
ابن حبان (الاحسان حدیث 5025/5003)
نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ والحمدللہ۔

دیگر صحیح احادیث:

1. صحیح مسلم:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے دونوں پر لعنت فرمائی۔”
(صحیح مسلم: 1597، ترقیم دارالسلام: 4092)

2. صحیح مسلم:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، لکھنے والے اور گواہ پر لعنت کی اور فرمایا: «هم سواء» یعنی یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔”
(صحیح مسلم: 1598، ترقیم دارالسلام: 4093)

3. صحیح بخاری:

سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"نبی ﷺ نے سود کھانے اور سود کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔”
(صحیح بخاری: 5347)

تنبیہ:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں تمام مدلسین کی معنعن روایات کو سماع یا متابعات کی بنیاد پر قبول کیا گیا ہے، لہٰذا ان کتب کی روایات پر تدلیس کی بنیاد پر کوئی جرح باطل اور مردود ہے۔

نتیجہ:

مندرجہ بالا تمام صحیح اور مستند احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

◈ سود کھانے والا،
◈ سود کھلانے والا،
◈ سودی معاہدہ لکھنے والا،
◈ اور اس کے گواہ،

سب اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔

لہٰذا:

✿ سود لینے والا اور سود دینے والا (جیسا کہ مروجہ تمام سودی بنکوں میں ہوتا ہے) برابر کے مجرم ہیں۔

شرعی حکم:

مندرجہ بالا تحقیق سے یہ بات مکمل طور پر ثابت ہوتی ہے کہ:

بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
➋ اس میں شدید شرعی قباحت ہے، کیونکہ شریعت نے ایسے تمام افعال کو حرام قرار دیا ہے۔
لہٰذا محمد رفیع صاحب کا فتویٰ غلط اور باطل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1