دس سال کے لڑکے کے بالغ یا نابالغ ہونے کا شرعی حکم
سوال:
کیا دس سال کی عمر کا لڑکا بالغ شمار ہوتا ہے یا نابالغ؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلوغ کی شرعی علامات
❀ پندرہ سال سے پہلے بلوغ:
اگر کوئی لڑکا پندرہ سال کی عمر سے پہلے جماع کے ذریعے یا بغیر جماع کے احتلام (بیداری یا خواب میں منی کا اخراج) کا تجربہ کرے تو وہ شرعاً بالغ شمار ہوگا۔
❀ پندرہ سال کی عمر میں بلوغ:
اگر کسی لڑکے کو پندرہ سال کی عمر تک احتلام نہ ہو، تو صرف عمر پوری ہونے پر بھی وہ شرعاً بالغ تصور کیا جائے گا۔
علماء کا اجماع اور احکام
❀ امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ الِاحْتِلَامَ فِي الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ يَلْزَمُ بِهِ الْعِبَادَاتُ وَالْحُدُودُ وَسَائِرُ الْأَحْكَامِ وَهُوَ إِنْزَالُ الْمَاءِ الدَّافِقِ سَوَاءٌ كَانَ بِجِمَاعٍ أَوْ غَيْرِهِ سَوَاءٌ كَانَ فِي الْيَقَظَةِ أَوِ الْمَنَامِ وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ لَا أَثَرَ لِلْجِمَاعِ فِي الْمَنَامِ إِلَّا مَعَ الْإِنْزَالِ،، انتهى
(فتح الباری، جلد 5، صفحہ 277)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ
❀ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عُرِضْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَلَمْ يُجِزْنِي، وَلَمْ يَرَنِي بَلَغْتُ
(عبدالرزاق، ابوعوانہ، ابن حبان۔ حوالہ: فتح الباری، جلد 5، صفحہ 278)
❀ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
واستدل بقصة ابن عمر على أن من استكمل خمس عشرة سنة، أجريت عليه أحكام البالغين، وإن لم يحتلم، فيكلف بالعبادات واقامة الحدود
(فتح الباری، جلد 5، صفحہ 278-279)
گرم ممالک میں بلوغ کی عمر
❀ گرم علاقوں میں بعض لڑکے دس یا گیارہ برس کی عمر میں احتلام کے ذریعے بالغ ہوجاتے ہیں۔
❀ تهذيب التهذيب، جلد 5، صفحہ 337 میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے متعلق ذکر ہے:
لم يكن بينه وبين أبيه فى السن، سوى إحدى عشرة سنة
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دس سال کی عمر میں احتلام ممکن ہے۔
❀ السراج المنیر میں ہے:
والعشرة زمن احتمال البلوغ بالاحتلام
نتیجہ:
لہٰذا دس سال کی عمر کے لڑکے کے بالغ ہونے کا امکان موجود ہے، بشرطیکہ اس میں احتلام جیسی شرعی علامت پائی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو، تو پندرہ سال کی عمر مکمل ہونے پر وہ شرعاً بالغ شمار ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(محدث، جلد 9، شمارہ: 8، ذی القعدہ 1360ھ / دسمبر 1941ء)