اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا مفہوم: سلف صالحین کی تفسیر اور لغوی وضاحت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے مفہوم کی وضاحت

سوال:

کیا یہ تفسیر سلف صالحین سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے عرش پر اس طرح ہے، جیسے اس کے جلال کے شایانِ شان ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کے عرش پر "استواء” (مستوی ہونے) کی یہ تفسیر کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس طرح مستوی ہے جیسے اس کے جلال کے شایانِ شان ہے، درحقیقت سلف صالحین کی ہی تفسیر ہے۔

امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ کی تفسیر:

◈ امام المفسرین ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تفسیر میں "استواء” کے مفہوم کو علو (بلندی) اور ارتفاع (اٹھنا) کے معنوں میں بیان کیا ہے۔
◈ وہ فرماتے ہیں:
جب کوئی کہتا ہے "اِسْتَویٰ فُـلَانٌ عَلٰی سَرِیْرِهِ” یعنی "فلاں اپنے تخت پر مستوی ہے”، تو اس سے مراد علو لیا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں استواء کا مفہوم:

◈ ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾
ترجمہ: "رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔”
ابن جریر نے اس کی تفسیر میں کہا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رحمن اپنے عرش پر بلند اور مرتفع ہے۔

◈ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سلف صالحین سے اس کے مخالف کوئی تفسیر منقول نہیں ہے۔

لغوی اعتبار سے "استواء” کے مختلف معانی:

لغتِ عرب میں "استواء” کا استعمال مختلف سیاق و سباق میں مختلف معنوں میں ہوتا ہے:

➊ مطلق اور غیر مقید استعمال: کمال

◈ اگر "استواء” مطلق ہو، تو اس کا مفہوم کمال ہوتا ہے:
﴿وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى﴾
ترجمہ: "اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور (عقل و شعور میں) کامل ہو گئے۔”

➋ واو کے ساتھ استعمال: برابری

◈ جب "استواء” واو کے ساتھ آئے تو معنی ہوتے ہیں برابری کے:
مثال: "اِسْتَوَی الْمَاءُ وَالْعَتَبَةُ”
ترجمہ: "پانی اور دہلیز برابر ہو گئے۔”

➌ إلیٰ کے ساتھ استعمال: قصد و ارادہ

◈ جب "استواء” إلیٰ کے ساتھ آئے تو معنی ہوتے ہیں قصد و ارادہ کے:
﴿ثُمَّ اسْتَوٰى إِلَى السَّمَاءِ﴾
ترجمہ: "پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔”

➍ عَلٰی کے ساتھ استعمال: علو و ارتفاع

◈ جب "استواء” عَلٰی کے ساتھ آئے تو اس کا مطلب ہوتا ہے علو و ارتفاع (بلندی اور بلند ہونا):
﴿الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾
ترجمہ: "رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔”

سلف صالحین کے اقوال:

◈ بعض سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ جب "استواء” علیٰ اور الیٰ دونوں کے ساتھ آئے، تو اس کا مطلب ارتفاع اور علو ہوتا ہے۔
◈ بعض نے یہ بھی کہا کہ "علیٰ” کے ساتھ استعمال کی صورت میں صعود (اوپر چڑھنا) اور استقرار (ٹھہرنا) کا مفہوم بنتا ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تفسیر:

◈ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الصواعق المرسلہ (جلد 4، صفحہ 1303) میں ارشادِ باری تعالیٰ:
﴿الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾
کی تفسیر خارجہ بن مصعب سے نقل کی ہے۔

◈ اس تفسیر میں "استواء” کو بیٹھنے کے معنی میں بیان کیا گیا ہے۔

حدیث کی روشنی میں:

◈ امام احمد رحمہ اللہ نے ایک حدیث مرفوعہ کے طور پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، جس میں بیٹھنے کا ذکر موجود ہے۔

ھٰذَا مَا عِندِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1