حمام میں نہانے کی شرعی حیثیت: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل اور حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد 1: اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 622

حمام میں نہانے کا مسئلہ: شرعی رہنمائی

سوال:

حمام میں نہانا کیسا ہے؟

روایت:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حمام میں جاتے، تو نہلانے والا جب اُن کے جسم سے میل صاف کرنے کی کوئی چیز ناف تک پہنچاتا تو وہ اسے فرماتے:
"اخرج”
یعنی "باہر چلے جاؤ”۔
(ماخذ: مجمع الزوائد 1/390، حدیث نمبر 1529)
(راوی: محمد محسن سلفی، کراچی)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  • اس روایت کی سند (سلسلہ روایت) مجھے معلوم نہیں ہے۔
  • تاہم، مصنف عبد الرزاق (1/291) اور موسوعۃ فقہ عبد اللہ بن عمر (صفحہ 308) میں اس کے معنوی شواہد موجود ہیں۔

ایک مضبوط روایت:

  • ابن ابی شیبہ (1/109، حدیث نمبر 1165) نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:

"لاتدخل الحمام فانه مما احدثوا من النعيم”
(تم حمام میں داخل نہ ہو کیونکہ انھوں نے بہت سی بدعات ایجاد کر لی ہیں۔)

(ماخذ: شہادت، اگست 2004ء)

خلاصہ کلام:

  • اگرچہ پہلی روایت کی سند غیر معروف ہے، لیکن دیگر کتب حدیث میں اس کے ہم معنی روایات موجود ہیں۔
  • سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ حمام کے رواج کو ناپسند فرماتے تھے، کیونکہ اس میں نعمتوں اور بدعات کا غیر ضروری اظہار ہوتا تھا۔
  • شرعی نقطہ نظر سے، حمام یا غسل خانے کا استعمال جائز ہے، تاہم شرم و حیا اور اسلامی آداب کا لحاظ ضروری ہے۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1