نماز کے ذریعے گناہوں کا کفارہ: حدیث کی تخریج، روایت کی صحت اور راویوں کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد 1، اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 615

نماز اور کفارہ گناہ

حدیث کا مفہوم:

ایک روایت میں ذکر ہے:

"حدثني عبد الله بن أحمد بن شبويه قال ، حدثنا إسحاق بن إبراهيم قال، حدثني عمرو بن الحارث قال، حدثني عبد الله بن سالم، عن الزبيدي قال ، حدثنا سليم بن عامر، أنه سمع أبا أمامة يقول: إن رجلا أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ، أقم فيَّ حَدّ الله ، مرةً واثنتين. فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم أقيمت الصلاة ، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة، قال: أين هذا القائل: أقم فيَّ حدَّ الله؟ قال: أنا ذا ! قال: هل أتممت الوضوء وصليت معنا آنفا؟ قال: نعم! قال: فإنك من خطيئتك كما ولدتك أمّك، فلا تَعُدْ ! وأنـزل الله حينئذ على رسوله:

(أقم الصلاة طرفي النهار وزلفًا من الليل)"
(سورۃ ہود آیت 114، تفسیر الطبری 6/133)

حدیث کی تخریج اور روایت کی صحت:

مصادر میں موجودگی:

یہ حدیث تفسیر ابن جریر (ج12 ص82) اور تفسیر ابن کثیر (ج4 ص288، بعض نسخوں میں ج2 ص480 بحوالہ ابن جریر) میں موجود ہے۔

سند کا درجہ:

یہ روایت "حسن لذاتہ” ہے، یعنی اپنی ذات میں حسن ہے۔

راویان کی تفصیل:

سلیم بن عامر الخبائری:
صحیح مسلم کے راوی، ثقہ ہیں۔

محمد بن ولید بن عامر الزبیدی:
صحیحین کے راوی، "ثقہ ثبت من کبار اصحاب الزہری”
(التقریب ص322)

عبداللہ بن سالم الاشعری:
صحیح بخاری کے راوی، ثقہ۔

◈ یحییٰ بن حسان اور عبداللہ بن یوسف نے ان کی تعریف کی۔
◈ نسائی نے کہا: "لیس به بس”
◈ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا۔
◈ دارقطنی نے توثیق کی۔
تہذیب التہذیب (5/400) میں تفصیل موجود ہے۔
◈ ذہبی: "صدوق فیه نصب” (الکاشف 2/80)
◈ ابن حجر: "ثقہ رمی بالنصب” (التقریب ص174)

نصب کے الزام کی تردید:

یہ الزام مردود ہے اور درج ذیل دلائل سے رد کیا گیا ہے:

➊ جمہور محدثین کی توثیق کے خلاف ہے۔
➋ عقائد سے متعلق ہے، روایت حدیث سے نہیں۔
➌ ابو داؤد رحمہ اللہ کی عبداللہ بن سالم سے ملاقات ممکن نہیں، کیونکہ وہ ان کی پیدائش سے قبل فوت ہوئے۔
➍ ابو عبید الآجری کے حالات نامعلوم ہیں، اور ان کا قول غیر معتبر ہے۔
➎ آجری سے یہ بات سند صحیح کے ساتھ ثابت نہیں۔

دیگر راویان کی توثیق:

عمرو بن الحارث الحمصی:
ابن حبان نے "مستقیم الحدیث” یعنی ثقہ کہا۔
◈ ابن خزیمہ، حاکم، دارقطنی، بیہقی وغیرہ نے ان کی توثیق کی۔

درجہ بندی کے اصول:

کسی روایت کو "صحیح” یا "حسن” کہنے کا مطلب ہے کہ تمام راوی محدث کے نزدیک "ثقہ” یا "صدوق” ہیں۔

◈ مراجع:

نصب الرایہ ج1 ص149، ج3 ص264
لسان المیزان ج1 ص227، ج5 ص414
السلسلۃ الصحیحہ ج6 ص660 ح2783، ج7 ص16 ح3007
بیان الوہم والابھام لابن القطان 5/395 ح25، 62

ضعیف اقوال کی تردید:

ذہبی: "غیر معروف العدالہ” (میزان الاعتدال 3/251)
ابن حجر: "مقبول” یعنی مجہول الحال

یہ اقوال مردود ہیں کیونکہ جمہور کی تعدیل کے خلاف ہیں، اور تصحیح حدیث سے متعارض بھی ہیں۔
◈ قاعدہ: "واذا تعارضا تساقطا” (میزان الاعتدال 2/552)

نتیجہ:

عمرو بن الحارث حسن الحدیث ہیں۔

دیگر راوی:

اسحاق بن ابراہیم بن العلاء الزبیدی:

◈ ابو حاتم، ابن معین، ابن خزیمہ، حاکم، ذہبی سب نے موثق قرار دیا۔
◈ امام نسائی سے منسوب "لیس بثقہ” (تہذیب التہذیب 1/189) بے سند ہے، مردود ہے۔
◈ آجری کی شدید جرح بھی ناقابل اعتبار ہے، کیونکہ:

➊ آجری غیر معروف العدالہ ہے۔
➋ اس کی کتاب میں یہ جرح موجود نہیں۔
➌ ابن کثیر نے اس کی کتاب کو "کتاب مفید” لکھا (اختصار علم الحدیث ص39) لیکن اس کی عدالت اور سند پر نظر ہے۔

نتیجہ:

اسحاق بن ابراہیم پر جرح مردود ہے، وہ حسن الحدیث راوی ہیں۔
مزید تفصیل: "القول المتین فی الجہر بالتامین” ص8، 9

باقی راوی:

عبداللہ بن احمد بن شبویہ:

◈ "مستقیم الحدیث” یعنی ثقہ (الثقات لابن حبان 8/366)
◈ ابو سعید الادریسی: "من افاضل الناس” (تاریخ بغداد 9/371)

حدیث کی تصحیح:

یہ حدیث حسن لذاتہ ہے، اور درج ذیل کتب میں اس کا شاہد بھی موجود ہے:

صحیح مسلم (25، 27)
مسند احمد (5/262، 263، 266)
صحیح ابن خزیمہ (311)

لہٰذا، یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔
(تحقیقی شہادت: مئی 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1