تحقیقِ روایت: موحد اور گناہوں کی مغفرت
سوال:
درج ذیل حدیث کی تخریج درکار ہے:
"من لقي الله لا يعدل به شيئا في الدنيا ، ثم كان عليه مثل جبال ذنوب غفر الله له”
(جو شخص اللہ سے ملاقات کرے اور وہ دنیا میں اس کے برابر کسی کو نہ سمجھتا تھا پھر اگر اس کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہوں تو اللہ اسے بخش دے گا)
(مشکوٰۃ المصابیح: ح236، بحوالہ: البیہقی فی البعث والنشور)
(محمد محسن سلفی)
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
روایت کی ابتدائی تحقیق:
اس روایت کے بارے میں "ہدایۃ الرواۃ” (تخریج المشکوٰۃ) کے محقق فرماتے ہیں:
"قلت: لم أقف علی إسناده، والغالب عليه الضعف” (ج2، ص458، ح2301)
یعنی: میں نے کہا کہ مجھے اس کی سند نہیں ملی اور اس طرح کی روایتوں پر عمومی طور پر ضعف غالب ہوتا ہے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت:
"أخبرنا أبو علي بن شاذان، أنبا عبد الله بن جعفر، ثنا يعقوب بن سفيان، ثنا يوسف بن عدي، ثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي، عن عمارة بن غزية، عن عطاء بن أبي مروان، عن أبيه، وعن أبي ذر قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكلام أفضل؟….. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لقي الله لا يعدل به شيئا في الدنيا، ثم كان عليه مثل جبال ذنوب، غفر الله له” (کتاب البعث والنشور، ص43، ح33)
اسناد کی صحت اور رواۃ کا تعارف:
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ذیل میں اس کے تمام رواۃ کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
➊ أبو علي الحسن بن أبي بكر أحمد بن إبراهيم بن الحسن بن محمد بن شاذان البغدادي
- خطیب بغدادی نے ابوالحسن بن رزقویہ سے نقل کیا: "ثقہ” (تاریخ بغداد، ج7، ص279، ت3772)
- حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "الإمام الفاضل الصدوق مسند العراق” (سیر اعلام النبلاء، 17/415)
➋ عبد اللہ بن جعفر بن درستویہ
- حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "وکان ثقہ” (سیر اعلام النبلاء، 15/531)
- ان پر ہبۃ اللہ اور برقانی کی جرح کے جواب کے لیے ملاحظہ ہو: تاریخ بغداد (ج9، ص42)، التنکیل (ص285–291)
➌ یعقوب بن سفیان الفارسی رحمۃ اللہ علیہ
- سنن ترمذی اور نسائی کے راوی ہیں۔
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں "الثقات” میں ذکر کیا: (تہذیب الکمال، 20/429؛ الثقات، 9/287)
- حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "ثقہ مصنف خیر صالح” (الکاشف، 3/254)
➍ یوسف بن عدی
- صحیح بخاری اور نسائی کے راوی ہیں۔
- ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ رحمہما اللہ نے فرمایا: "ثقہ” (الجرح والتعدیل، 9/227)
➎ عبد العزیز بن محمد الدراوردی
- کتبِ ستہ کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
- امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے۔ (تہذیب الکمال، ج11، ص527)
➏ عمارة بن غزیہ
- صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔
- احمد بن حنبل، ابو زرعہ الرازی رحمہما اللہ وغیرہ نے کہا: "ثقہ” (تہذیب الکمال، ج14، ص20)
➐ عطاء بن ابی مروان
- نسائی کے راوی ہیں۔
- احمد بن حنبل، نسائی وغیرہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (تہذیب الکمال، 13/65)
➑ ابو مروان الاسلمی
- سنن نسائی کے راوی ہیں۔
- ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے، تاہم:
- عجلی (المعتدل)
- ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ (تہذیب الکمال، 22/28)
نتیجہ:
مندرجہ بالا تمام رواۃ ثقہ اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً صحیح اور غریب ہے۔
دیگر احادیث سے معنوی تائید:
یہ روایت صحیح بخاری (ح1237) اور صحیح مسلم (ح94) میں موجود حدیث سے معنوی طور پر مؤید ہے:
"أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَأَخْبَرَنِي – أَوْ قَالَ: بَشَّرَنِي – أَنَّهُ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ”
*(میرے پاس میرے رب کی طرف سے آنے والے نے آکر مجھے بتایا یا خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو بھی اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوئے مرے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔)*
(شہادت: اپریل 2003ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
(واللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ درست کیا ہے)