عصبیت، منافق کی تعظیم، گمراہ مجالس میں شرکت اور علانیہ گناہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

عصبیت، منافق کی تعظیم، گمراہوں کی مجالس میں شرکت اور علانیہ گناہ: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تنبیہات

عصبیت کی پکار اور اس کا رد

واقعہ: مہاجر اور انصاری کے درمیان جھگڑا

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نہایت خوش مزاج اور ہنسی مذاق کرنے والا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے مذاق میں ایک انصاری کی پیٹھ پر تھپڑ مار دیا۔ اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور اس نے پکارا: "اے انصار!” جواباً مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لیے پکارا۔

یہ آوازیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

’’یہ جاہلیت کی سی پکار کیسی؟ جبکہ میں تمہارے درمیان ہوں؟‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سارا واقعہ آپ کو بتایا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس پکار کو چھوڑ دو، یہ خبیث پکار ہے‘‘

(بخاری۔ المناقب باب ما ینھیٰ من دعوۃ الجاھلیہ 3518۔ مسلم۔ البر والصلہ باب نصر الاخ ظالما او مظلوماً 2584)

جاہلی تعصب کی مذمت

جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جو اندھے جھنڈے کے نیچے مارا گیا، اس حالت میں کہ وہ (قومی یا وطنی) عصبیت کی طرف بلا رہا تھا یا عصبیت کی مدد کر رہا تھا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘

(مسلم۔ الامارہ۔ باب وجوب ملازمہ جماعۃ المسلمین 1850)

ناحق قوم پرستی کی تشبیہ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی، اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنویں میں گر گیا اور اس کی دم کنویں سے باہر ہے‘‘

(ابو داود۔ الادب۔ باب فی العصبیہ 5117)

اسی قول کو مسند احمد (3726) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہیں۔

جاہلیت کی رسومات اپنانے والوں سے اللہ کی نفرت

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللہ کے نزدیک تین قسم کے لوگ قابل نفرت ہیں:

➊ مکہ اور مدینہ میں رہتے ہوئے اسلامی راستے کو چھوڑنے والے (یعنی ملحد)
➋ اسلام میں جاہلیت کے طور طریقے رائج کرنے والے
➌ ناحق کسی کا خون بہانے کے خواہشمند‘‘

(بخاری۔ الدیات باب من طلب دم امری بغیر حق 6882)

منافق کی تعظیم کرنا

منافق کو سردار کہنا رب کی ناراضگی کا سبب

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’منافق کو سردار مت کہو، اگر وہ تمہارا سردار ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا‘‘

(ابو داود: الادب، لا یقول المملوک ربی: 4977 قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: ضعيف)

دنیاوی مال و دولت رکھنے والوں کی مدح سرائی کی ممانعت

اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی مال و دولت سے نوازا ہے، لیکن اس کے عقائد باطل اور دین فاسد ہے، تو:

◈ اس کی تعریف کرنا
◈ اس کی تہذیب و تمدن کو سراہنا
◈ اس کے اخلاق و مہارت سے متاثر ہونا

یہ سب حرام ہے۔

یہ دنیاوی نعمتیں صرف چند روزہ فائدہ ہیں اور جلد فنا ہو جائیں گی۔

ان کی ایمان سے محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ان کا منتظر ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ” (طہ: 131)
’’اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزمائیں اور تمہارے رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے۔‘‘

گمراہ لوگوں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کا حکم

◈ ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنا
◈ ان کی تقریبات کو منعقد کرنے میں مدد دینا
◈ ان تہواروں پر مبارکباد دینا

یہ سب حرام ہے۔
ایسے ظالموں کی ہم نشینی عذاب کا سبب ہے۔

گمراہوں کی مجالس میں شرکت

خانہ کعبہ پر حملے کا ارادہ رکھنے والے لشکر کی تباہی

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ایک لشکر خانہ کعبہ میں پناہ لینے والے مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے جائے گا۔ جب وہ مقام بیداء پر پہنچے گا تو اس کے اول آخر سب کے سب زمین میں دھنسا دیے جائیں گے‘‘

عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:

"اے اللہ کے رسول! راستے میں تو عام لوگ اور تاجر بھی ہوں گے؟”
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"ان کے اول آخر سب دھنسا دیے جائیں گے، پھر قیامت کے دن ان سے ان کی نیت کے مطابق حساب ہوگا”

(بخاری۔ البیوع۔ ما ذکر فی الاسواق 2118۔ مسلم۔ الفتن باب الخسف بالجیش 2884)

گمراہوں کی مجلسوں میں شرکت کا شرعی اصول

ایسی مجالس میں جانا صرف اس وقت جائز ہے:

◈ جب مقصد حق بات کی دعوت دینا ہو
◈ جب مقصد ان کی تردید کرنا ہو

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ” (الانعام: 68)
’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی اور نکتہ چینی کر رہے ہوں تو آپ ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو چھوڑ کر کسی اور بات میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان آپکو یہ نصیحت بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں‘‘

دینداروں کی صحبت اختیار کرنا

ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مومن کے سوا کسی اور کو ساتھی نہ بناؤ۔ اور متقی شخص کے علاوہ تمہارا کھانا کوئی اور نہ کھائے‘‘

(ابو داود: الادب، باب: من یومر ان یجالس: 4832۔ ترمذی: 2395)

علانیہ گناہ کا ارتکاب

اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پردے کو چاک کرنا

گناہوں کو علانیہ بیان کرنا:

اللہ کے خوف کی کمی کی علامت ہے
معافی سے محرومی کا سبب ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میری امت کا ہر فرد معافی کے قابل ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کھلم کھلا گناہ کرنے والے ہوں گے۔

اور یہ بھی علانیہ گناہ میں سے ہے کہ رات کو آدمی کوئی (گناہ) کا کام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا (لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیا) اور صبح کو وہ کہے:
اے فلاں! گزشتہ رات میں نے (گناہ کا) فلاں کام کیا۔
اس کے رب نے رات کو اس کی پردہ پوشی کی تھی اور صبح کو اس نے وہ پردہ چاک کر دیا جو اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا تھا‘‘

(بخاری۔ الادب۔ باب ستر المومن علی نفسہ 6069۔ مسلم۔ الزہد۔ النھی عن ھتک الانسان ستر نفسہ 2990)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1