دین سے اعراض (اسلام سے منہ موڑنا)
الاعراض عن دین الله تعالیٰ: مفہوم اور وضاحت
**الاعراض عن دین الله تعالیٰ** کا مطلب ہے دین الٰہی سے مکمل روگردانی اختیار کرنا، یعنی:
– دین کو سیکھنے کی کوشش نہ کرنا،
– دین کے کسی حکم پر عمل نہ کرنا۔
یہ طرزِ عمل **نواقضِ اسلام** (اسلام کو ختم کرنے والے اعمال) میں شامل ہے۔
دینِ اسلام سے اعراض اور روگردانی کا مطلب صرف دین کے تفصیلی مسائل سے ناواقف ہونا نہیں، بلکہ دین کی **بنیادی تعلیمات** سے بھی لاعلمی ہے، جن سے انسان مسلمان بنتا ہے۔ تفصیلی علم کا حاصل ہونا علماء اور طلباء دین کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
کفرِ اعراض کی حقیقت
**کفرِ اعراض** وہ صورت ہے کہ انسان ظاہری طور پر کلمہ پڑھنے کے باوجود دین سے اس طرح غافل اور بے تعلق ہو جاتا ہے کہ:
– نہ دین کا علم حاصل کرتا ہے،
– نہ کسی حکم پر عمل کرتا ہے،
– نہ دین کی طرف کوئی رغبت رکھتا ہے۔
ایسا شخص اپنی اس حالت کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
**قرآنی دلیل:**
_”وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ“_ **(السجدۃ ۲۲)**
_”اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کا وعظ کیا گیا، پھر بھی اس نے منہ پھیر لیا؟ ہم بھی مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔”_
اعراض کی مزید وضاحت: علماء کی آراء
شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن رحمہ اللہ** سے جب اس مسئلہ پر سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
ایمان کی اصل بنیاد موجود ہو تو ایمان کی کمی بیشی اور درجات میں فرق ممکن ہے۔
لیکن اگر توحید جیسی ایمان کی بنیاد ہی نہ ہو اور کوئی شخص اس سے کلی طور پر منہ موڑے تو یہی کفرِ اعراض ہے۔
**فرمانِ الٰہی:**
_”وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ“_ **(طہ ۱۲۴)**
"اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔”
علامہ سلیمان رحمہ اللہ** نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
– اعراض کا مطلب فرائض و مستحبات کو چھوڑنا نہیں ہے،
– بلکہ اس کا مطلب اسلام کی **بنیادی تعلیمات** سے منہ موڑنا ہے، جن کے ذریعے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔
**ترکِ صلوٰۃ** کے سوا اگر کوئی دیگر فرائض چھوڑ دے تو وہ فاسق و فاجر ہوگا، کافر نہیں۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا بیان
**علامہ ابن القیم رحمہ اللہ** لکھتے ہیں:
– کفرِ اعراض وہ ہے کہ کوئی شخص دل و کانوں سے رسول اللہ ﷺ کی باتوں سے روگردانی کرے،
– نہ تصدیق کرے، نہ تکذیب،
– نہ دوستی رکھے نہ دشمنی،
– نہ کتاب و سنت کی طرف مائل ہو جو رسول ﷺ لے کر آئے۔
(مدارج السالکین)
موجودہ حالات اور عمومی غفلت
اعراض کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
– بہت سے لوگ اسلام کے بنیادی عقائد پر غور ہی نہیں کرتے،
– ایمان بالله اور عقیدہ توحید سیکھنے کی زحمت نہیں کرتے،
– ان کے دل و دماغ رسول اللہ ﷺ سے دور ہوتے ہیں۔
ان کے متعلق یہ کہنا کہ یہ صرف جاہل ہیں اور کافر نہیں، **درست نہیں**، کیونکہ:
– جاہل جب حق بات جانتا ہے تو رجوع کرتا ہے،
– لیکن جو شخص بتوں کی عبادت پر قائم رہے، رسول کی باتوں پر کان نہ دھرے، اور حق کی مخالفت کرے، تو وہ **کفرِ اعراض** کا مرتکب ہوتا ہے۔
**قرآنی دلیل:**
_”وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَمَّا اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ“_ **(الاحقاف ۳)**
_”کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں، اس سے روگردانی کرتے ہیں۔”_
تقدیر کا انکار کفر ہے
تقدیر پر ایمان: ایک لازمی عقیدہ
**قرآنی دلیل:**
_”إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ”_ **(القمر ۴۹)**
_”بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک خاص مقدار کے مطابق پیدا کیا ہے۔”_
ائمۂ اہل سنت نے ایسی آیات اور صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے **تقدیر کا اثبات** کیا ہے، جس کا مفہوم ہے:
– اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کرنے سے پہلے جان لیا،
– سب کی تقدیر اللہ نے لکھ دی ہے۔
تقدیر کے انکار پر نبی کریم ﷺ کا فرمان
**عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ** روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
_”تقدیر کے منکر اس امت کے مجوسی ہیں۔ اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر مر جائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھو۔”_
**(ابوداود: ۴۶۹۱، شیخ البانی نے حسن کہا)**
**یحییٰ بن یعمر** بیان کرتے ہیں:
– تقدیر پر سب سے پہلے اعتراض **معبد جہنی** نے بصرہ میں کیا۔
– جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر دی گئی تو فرمایا:
_”میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرے، تو وہ قابلِ قبول نہ ہو گا جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہ لائے۔”_
پھر انہوں نے **حدیث جبرئیل** بیان کی:
_”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر کے خیر و شر پر ایمان لاؤ۔”_
**(مسلم الایمان:۸)**
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت
**زید بن ثابت رضی اللہ عنہ** سے روایت ہے:
_”اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دے، تو ان پر ظلم نہ ہو گا۔ اگر ان پر رحمت کرے تو رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی۔ اگر کسی کے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، تو اللہ اس وقت تک اسے قبول نہیں کرے گا جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہ لائے۔”_
**(ابو داؤد: ۴۶۹۹، شیخ البانی نے صحیح کہا)**
تقدیر پر ایمان کا مفہوم
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ انسان مکمل طور پر مجبور ہے، بلکہ:
– بعض امور میں انسان مجبور ہے جیسے: پیدائش، قوم، زبان، رنگ، موت، بیماری۔
– لیکن جن امور پر آخرت میں حساب لیا جائے گا، ان میں **انسان مختار** ہے۔
**فرمانِ الٰہی:**
_”فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا”_ **(النبا ۳۹)**
_”پس جو چاہے، اپنے رب کی طرف (عمل صالح کر کے) رجوع کرے۔”_
_”إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا”_ **(الدھر ۳)**
_”ہم نے اسے راہ دکھائی، اب چاہے شکر گزار بنے یا نا شکرا۔”_
-_”وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ”_ **(التکویر ۲۹)**
_”تم کچھ نہیں چاہ سکتے، سواۓ اس کے کہ اللہ، رب العالمین چاہے۔”_
اللہ کی رضا اور مشیت میں فرق
**رضا:** اللہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی کفر نہ کرے، کوئی جہنم میں نہ جائے۔
_”ولا یرضی بعبادہ الکفر وان تشکروا یرضہ لکم”_
**مشیت:** جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے، وہ اللہ کی حکمت و عدل کے تحت ہوتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ واقع نہیں ہو سکتا۔