دین کا مذاق اڑانا اور جادو: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیلی وضاحت
دین کا مذاق اڑانے کا انجام
دین، ثواب اور عذاب کا مذاق: صریح کفر
– **من استھزأ بشئ من دین الرسول صلی الله علیہ وسلم، أو ثوابہ، أو عقابہ کفر۔**
– دین اسلام کی کسی بھی بات، اس کے اجر و ثواب یا اس کی سزا کا مذاق اڑانا، **کفر** ہے۔ چاہے یہ مذاق **مزاحاً یا غیر سنجیدگی سے** ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔
– **اجماع امت** کے مطابق بھی دین کے کسی بھی امر کا استہزاء (مذاق) **کفر** ہے۔
تاریخی واقعہ: جنگ تبوک کے موقع پر استہزاء کا انجام
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ تبوک کے موقع پر ایک محفل میں ایک شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہا کہ ان سے زیادہ میں نے باتوں میں تیز، کھانے میں پیٹو، کلام میں جھوٹے اور لڑائی میں بزدل کسی اور کو نہیں دیکھا۔ محفل میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو بلکہ تم منافق ہو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور بتاؤں گا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچی تو قرآن حکیم کی آیات نازل ہوئیں ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کو دیکھ رہا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور پتھر اس کے پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا یا رسول اللہ ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات تلاوت کر رہے تھے:
**قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ** *(التوبۃ: 65-66)*
"کہہ دیجئے: کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی تمہاری ہنسی اور دل لگی ہوتی ہے؟ بہانے نہ بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد **کافر** ہو چکے ہو۔”
*(ابن جریر: ۱۰/۱۷۲، محدث سلیمان العلوان نے جید سند کہا ہے)*
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت
– امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جو اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا تھا، وہ اپنے خیال میں اسے کفر نہیں سمجھتے تھے۔ ان کو یہ علم تھا کہ یہ حرام ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کفر بھی ہے۔”
*(کتاب الایمان، صفحہ 273)*
دین کی کسی بھی بات کا مذاق: مثالیں
– دین کے نازل شدہ احکام میں سے کسی بات کا مذاق اڑانا، جیسے:
– نماز
– داڑھی رکھنا
– شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا
– شرعی پردہ
– سود چھوڑنا
– جنت و جہنم کا تذکرہ
– **یہ سب مذاق اڑانا کفر ہے**۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذاق
– ان کا مذاق اڑانا، جیسا کہ مذکورہ آیت میں واضح کیا گیا، **اللہ، اس کی آیات، اور رسول اللہ کا مذاق اڑانا** ہے۔
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تقسیم
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے مذاق اڑانے والوں کی دو اقسام بیان کی ہیں:
1. **واضح استہزاء:**
– جیسا کہ "یہ قرآن پڑھنے والے جھوٹے، بزدل اور پیٹو ہیں”۔
– انہی لوگوں کے متعلق مذکورہ آیت نازل ہوئی تھی۔
2. **غیر واضح استہزاء:**
– اشاروں کنایوں، زبان نکالنے، ہونٹ پھیلانے جیسے مبہم انداز سے قرآن یا سنت رسول کا مذاق۔
– یہ عمل بھی انسان کو **اسلام سے خارج** کر دیتا ہے۔
*(حکم المرتد، صفحہ 105)*
ایسی محفلوں میں شرکت کا حکم
– قرآن مجید نے واضح حکم دیا:
**وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا** *(النساء: 140)*
"اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں کتاب میں یہ حکم دے دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں نہ لگ جائیں۔ ورنہ تم بھی ان جیسے ہو جاؤ گے۔”
چٹکلے، مذاق اور دین
– بعض لوگ جنت، جہنم، فرشتوں اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مذاق کرتے ہیں۔
– "دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے” جیسے جملے **کفر** کے زمرے میں آتے ہیں۔
– دین کے کسی بھی جز کا مذاق اڑانا، دوسروں کو ہنسانے کے لیے ہو یا دل لگی کے لیے، **صریح کفر** ہے۔
– اگر کوئی شخص ایسی مجلس میں شریک ہو اور **ایمانی غیرت نہ دکھائے**، تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو مذاق اڑانے والے کا ہے۔
جادو اور اس کا حکم
جادو: کرنا یا اس پر راضی ہونا = کفر
-**السحر، فمن فعلہ أو رضي بہ کفر**
جس نے جادو کیا یا اس پر راضی ہوا، **کفر** کیا۔
**وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَآ نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَـلَا تَکْفُرْ** *(البقرۃ: 102)*
’’وہ دونوں کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر۔‘‘
جادو کی اقسام
– **صَرف**: کسی کو محبوب چیز سے نفرت دلانا (مثلاً: شوہر کا بیوی سے نفرت کرنے لگ جانا)۔
– **عطف**: ناپسندیدہ چیز کی طرف میلان پیدا کرنا۔
شیطانی تعلیم اور حقیقت
– **جادو** شیطان کی تعلیم ہے:
**وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ** *(البقرۃ: 102)*
"اور لیکن کفر وہ شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے”۔
– **جادو حقیقت ہے**:
– اللہ تعالیٰ نے اس سے **پناہ مانگنے** کا حکم دیا:
**وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ** *(الفلق: 4)*
’’اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (میں صبح (دن کا اجالا کرنے والے) کے رب کی پناہ میں آتا ہوں)۔‘‘
جادو کا اثر
– جادو سے میاں بیوی میں جدائی بھی ہو جاتی ہے:
**يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ** *(البقرۃ: 102)*
’’(شیطان) لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ اور بابل (شہر) میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو آزمائش ہیں تم کفر نہ کرو۔ پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند، بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘۔
**فرعون** کا جادو:
**وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ** *(الاعراف: 116)*
’’یعنی فرعون ایک بڑا جادو لے کر آیا۔‘‘
– **رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم** پر بھی ایک یہودی (لبید بن اعصم) نے جادو کیا۔
– آپ کو ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی کام کر لیا حالانکہ وہ نہیں کیا ہوتا۔
*(بخاری: 5763، مسلم: 2189)*
– **سورۃ فلق** جادو کے متعلق نازل ہوئی۔
– آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اِنَّ الله شَفانِی”
یعنی "اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی۔”
جادو کرنے والوں کی سزا
**حضرت عمر رضی اللہ عنہ** نے حکم دیا:
"ہر جادوگر کو قتل کر دو۔”
*(مسند احمد، ج1، ص190)*
– ایک دن میں **تین جادوگر عورتوں کو قتل** کیا گیا۔
**رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم** نے فرمایا:
"سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں جادو بھی شامل ہے۔”
*(صحیح بخاری: 2766)*
جادو ختم کرنے کے شرعی طریقے
امام ابن القیم رحمہ اللہ کی وضاحت:
1. **حرام طریقہ:**
جادو کا توڑ جادو سے کرنا۔
یہ **شیطانی عمل** ہے۔
شرکیہ تعویذات اور دم اس میں شامل ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:
"نشرہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟”
آپ نے فرمایا:
**”یہ شیطان کے عمل میں سے ہے۔”**
*(ابوداؤد: 3868، صحیح الاسناد)*
2. **جائز طریقہ:**
**دعا، تعویذ، دم، ادویات** کے ذریعے علاج کرنا۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اصلاح کی غرض سے دم کرنا درست ہے۔ فائدہ بخش چیز کو منع نہیں کیا جاتا۔”
*(بخاری معلقاً، کتاب الطب)*
جادوگروں، عاملوں، نجومیوں کے پاس جانا
**”من اتٰی عرافًا فسألہ عن شیٔ لم تقبل لہ الصلاۃ اربعین لیلۃ”** *(مسلم: 2230)*
’’جو شخص کسی عامل کے پاس جا کر (جادو) کے متعلق سوال کرے تو اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی۔‘‘
**”من اتٰی عرافًا أو کاھنًا فصدقہٗ… فقد کفر بما انزل علی محمدٍ”** *(مسند بزار: 443/2)*
’’جو کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو تحقیق وہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا ہے۔‘‘
جادوگروں کی دھوکہ دہی
– آج کل گمراہ عامل، سنیاسی، نجومی **پروفیسر** کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔
– کالا علم، زائچے، الٹی قرآنی آیات اور شرکیہ تعویذات کو **قرآنی تعویذ** کہہ کر پیش کرتے ہیں۔
– ’’آپ کا ہفتہ کیسا گزرے گا‘‘ جیسے عنوانات میں **شیطانی جھوٹی خبریں** پھیلائی جاتی ہیں۔
– ان کے پاس جانا اور ان پر ایمان رکھنا **اسلام سے خروج** ہے۔