انگریزی بال اور قزع: مشابہتِ کفار کے فقہی احکام اور تشریح حدیث ‘من تشبه بقوم فهو منهم
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 152

سوال

انگریزی بال قزع میں داخل نہیں ہے

جواب 

انگریزی بال میرے نزدیک "قزع” کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔

قزع کی تعریف

صاحب مجمع البحار، جلد 3، صفحہ 142 نے النہایۃ فی غریب الحدیث، جلد 4، صفحہ 59 کے حوالے سے "قزع” کی یہ تعریف کی ہے:

"هو أن يحلق رأس الصبى ويترك من مواضع متفرقة، تشبيها بقزع السحاب، أى قطعه المتفرقة”

یعنی قزع اس عمل کو کہتے ہیں کہ بچے کے سر کے کچھ حصے مونڈ دیے جائیں اور کچھ چھوڑ دیے جائیں، جس طرح بادل کے چھوٹے چھوٹے بکھرے ہوئے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

انگریزی بال رکھنے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل درج ذیل حدیث کے تحت آتا ہے:

"من تشبه بقوم فهو منهم”

(سنن ابی داؤد، عن ابن عمر: کتاب اللباس، باب في الشهرة، حدیث: 4031، جلد 4، صفحہ 314)

یہ حدیث اپنے عموم اور اطلاق کے لحاظ سے اس قسم کی مشابہت کو ممنوع اور مذموم قرار دیتی ہے، جو کسی غیر مسلم قوم کی مذہبی یا معاشرتی علامت ہو۔

گُدی کے بال مونڈوانے کے بارے میں

امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ گُدی کے بال مونڈوانا کیسا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:

"یہ تو مجوسیوں کا فعل ہے”

اسی حوالے سے "ومن تشبه بقوم فهو منهم”
(اقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيم) کا بھی ذکر ہے، جو مشابہت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔

علامہ طیبی کا قول

علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أجمعوا على كراهته، إذا كان في مواضع متفرقة، إلا أن يكون لمداوة، لأنه من عادة الكفرة، ولقباحته صورة”

یعنی: علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر سر کے مختلف حصے مونڈے جائیں تو یہ مکروہ ہے، سوائے اس کے کہ یہ کسی علاج کی غرض سے کیا گیا ہو، کیونکہ یہ کفار کی عادت ہے اور اس کی ظاہری شکل بھی قبیح ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ حدیث میں صرف مجموعی مشابہت مراد نہیں، بلکہ اگر کسی ایک جز یا علامت میں بھی مشابہت پائی جائے جو کسی قوم کا مذہبی یا قومی شعار ہو، تو وہ بھی اس حدیث کی روشنی میں ممنوع اور مکروہ شمار ہوگا۔

مزید مطالعہ کے لیے قاری محمد طیب صاحب دیوبندی کا رسالہ "التشبّہ في الإسلام” قابلِ مطالعہ ہے۔

 

یہ بات درست ہے کہ:

  • ➊ قیاس اور اجتہاد سے جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہوں، وہ صرف اس شخص کے لیے حرام ہوں گی جو اس قیاس یا اجتہاد کو صحیح مانے یا اس مجتہد کا مقلد ہو۔
  • ➋ اسی طرح قیاس سے نکالے گئے احکام کی خلاف ورزی بھی اسی کے لیے گناہ شمار ہوگی جو اسے صحیح سمجھے یا اس مجتہد کی پیروی کرے۔
  • ➌ یہ بھی درست ہے کہ جزوی مشابہت کی بنا پر ہر کسی کو گناہ گار یا فاسق قرار دینا زیادتی ہے۔

لیکن یہ کہنا کہ جزوی تشبہ ممنوع نہیں ہے بلکہ صرف مکمل تشبہ ممنوع ہے، یہ رائے میرے نزدیک درست نہیں۔ کیونکہ:

حدیث تشبہ کی نوعیت

حدیث "من تشبه بقوم فهو منهم” مطلق اور عام ہے۔ اس میں ہر قسم کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے، چاہے وہ:

  • مذہبی ہو یا قومی،
  • جزوی ہو یا کلی۔

اگر کسی غیر مسلم قوم کا کوئی مخصوص شعار، خواہ مذہبی ہو یا قومی، اپنا لیا جائے، تو وہ بھی حدیث کے تحت ممنوع ہوگا۔

جزوی مشابہت کو جواز دینے والے دلائل کا جائزہ

یہ کہا گیا ہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے رومی جبہ اور کسروانی قبا پہنی، تو اس سے جزوی مشابہت جائز ہے — مگر یہ استدلال ناقابل قبول ہے، اس لیے کہ:

  • ➍ یہ ثابت نہیں کہ وہ جبہ اور قبا ان اقوام کے استعمال میں رہے ہوں۔
  • ➎ اور اگر استعمال میں رہے بھی ہوں، تو یہ ان کا مخصوص مذہبی یا قومی لباس تھا، اس کا ثبوت موجود نہیں۔
  • ➏ ممکن ہے کہ یہ صرف ان علاقوں کی صنعت اور ایجاد ہو، نہ کہ کوئی مذہبی یا قومی شعار۔

مرد و عورت کی مشابہت پر قیاس

مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔ تو کیا مرد کو عورت سے جزوی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت ہے؟ نہیں! کیونکہ:

  • ➐ جس طرح مرد و عورت کی ہر قسم کی مشابہت ممنوع ہے — خواہ جزوی ہو یا کلی —
  • ➑ اسی طرح متنازعہ مسئلہ (جیسے قزع یا انگریزی بال) میں بھی ہر طرح کی مشابہت ممنوع ہونی چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1