قبولیت دعا کے لیے ضروری شرائط
سوال
انسان دعا کیوں کرے جبکہ اس کی دعا قبول نہیں ہو رہی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ٱدۡعُونِيٓ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ﴾
’’تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں اللہ رب العزت سے اپنے لیے اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں درست عقیدہ، سچائی پر مبنی اقوال و اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ﴾ سورۃ المؤمن: 60
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
سائل جب دعا کرتا ہے اور قبولیت نہ دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں اس آیتِ کریمہ اور اپنی حالت کے درمیان تضاد محسوس ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو دعا کی قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت چند اہم شرائط سے مشروط ہے:
دعا کی قبولیت کی شرائط
➊ اخلاص
◈ دعا میں اللہ تعالیٰ کے لیے مکمل اخلاص ہونا چاہیے۔
◈ دعا کے وقت دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہو اور صدقِ دل کے ساتھ اللہ کے حضور جھکے۔
◈ دعا کرتے وقت یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
◈ دعا قبول ہونے کی امید کے ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر مانگے۔
➋ اللہ تعالیٰ سے حقیقی حاجت کا احساس
◈ دعا کرتے وقت انسان کو اپنی شدید ضرورت اور اللہ کی طرف احتیاج کا شعور ہو۔
◈ دل میں یہ یقین ہو کہ صرف اللہ ہی ہر مصیبت کو دور کر سکتا ہے۔
◈ اگر کوئی دعا کو معمولی یا روٹین کا عمل سمجھ کر کرے، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟
➌ حرام سے اجتناب
◈ حرام کھانا اور حرام کمائی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اِنَّ اللّٰهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ اِلاَّ طَيِّبًا وَاِنَّ اللّٰهَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ بِمَا اَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِيْنَ فَقَالَ تَعَالٰی: ﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۷۲)
ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ يُطِيْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ اِلَی السَّمَاءِ: يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْمَعُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ قَالَ النَّبِیُّ: فَاَنَّی يُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟»
(صحیح مسلم، الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتھا، ح:۱۰۱۵)
’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی کو قبول فرماتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے، جو اس نے رسولوں کو حکم دیا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں سے، جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہوں۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر کیا ہے، پراگندہ حال وپراگندہ بال اور غبار آلودگی کے عالم میں آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر کہتا ہے: اے رب! اے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے اور اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام ہی کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہے گویاکہ اس کی بود وباش حرام خوری میں ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘
➍ دعا قبولیت کے اسباب جن کا ظاہری اختیار فائدہ نہ دے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ دعا قبول ہونے کے کچھ ظاہری اسباب ہیں، مثلاً:
◈ ہاتھوں کا اللہ کی طرف اٹھانا
◈ رب کے اسم پاک سے دعا کرنا
◈ سفر کی حالت میں ہونا
➎ ہاتھ اٹھانا
◈ اللہ تعالیٰ آسمان پر اپنے عرش پر ہے۔
◈ ہاتھ پھیلانا دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
«اِنَّ اللّٰهَ حَیٌّ کَرِيْمٌ يَسْتَحْيِیْ من عبده اذارفع اليه يديه أن يردهما صفرا»(مسند احمد: ۵/ ۴۳۸ وجامع الترمذی، الدعوات، باب ان الله حی کریم، ح: ۳۵۵۶، وسنن ابن ماجه، الدعاء، باب رفع الیدین فی الدعاء، ح: ۳۸۶۵)
’’بے شک اللہ تعالیٰ صاحب حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اس بات سے عار محسوس کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھائے تو وہ انہیں خالی او ر نامراد واپس لوٹا دے۔‘‘
➏ رب کے نام سے دعا کرنا
◈ ’’رب‘‘ کا مطلب ہے خالق، مالک اور تمام امور کا مدبر۔
◈ قرآن میں زیادہ تر دعائیں اسی اسمِ پاک سے شروع ہوتی ہیں:
﴿رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ ﴿١٩٣﴾ رَبَّنا وَءاتِنا ما وَعَدتَنا عَلى رُسُلِكَ وَلا تُخزِنا يَومَ القِيـمَةِ إِنَّكَ لا تُخلِفُ الميعادَ ﴿١٩٤﴾فَاستَجابَ لَهُم رَبُّهُم أَنّى لا أُضيعُ عَمَلَ عـمِلٍ مِنكُم مِن ذَكَرٍ أَو أُنثى بَعضُكُم مِن بَعضٍ…﴿١٩٥﴾
’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کردے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا، تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کی جنس ہو۔‘‘
(سورة آل عمران: ۱۹۳-۱۹۵)
➐ سفر میں دعا کرنا
◈ سفر کے دوران دعا قبول ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« اَتَونِی شُعْثًا غُبْرًا ضاحين من کل فج عميق»
میرے بندے میری جناب حاضری دینے کی غرض سے پراگندہ حال اور پراگندہ بال قربانی کا جانور ساتھ لئے ہوئے دوردرزعلاقوں سے چل کر آئے ہیں۔
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل الحج والعمرة ویوم عرفة۴۳۶)
➑ ان اسباب کے باوجود دعا قبول نہ ہونا
◈ اگرچہ یہ اسباب موجود ہوں، لیکن اگر انسان حرام کمائی میں ملوث ہو تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
➒ حکمتیں دعا کی عدم قبولیت میں
◈ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی بڑی مصیبت کو دور کر دیتا ہے، یا دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر دیتا ہے۔
◈ کبھی اللہ تعالیٰ زیادہ اجر عطا کرنے کے لیے دعا کو دنیا میں قبول نہیں کرتا۔
➓ دعا میں جلد بازی سے اجتناب
◈ دعا میں جلد بازی کرنا دعا کی عدم قبولیت کا ایک سبب ہے۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يُسْتَجَابُ لَاحَدِکُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، قالوا کيف يعجل يارسول الله؟ قال: يَقُولُ: دَعَوْت ودعوت ودعوتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِیْ»
’’تم میں سے اس شخص کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ جلدی بازی سے کام نہ لے (صحابہ کرام نے عرض کیا دعاء میں جلد بازی کا کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ بندہ یہ کہتے پھرے کہ میں نے دعاکی میں نے دعاء کی میں نے دعاء کی مگر میری دعا تو قبول ہی نہ ہوئی۔‘‘
(صحیح البخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل، ح: ۶۳۴۰ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان انه یستجاب للداعی مالم یعجل… ح: ۲۷۳۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب