جن اور انسانوں کی تخلیق کی حکمت
تمہید
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کی شریعت کے ایک عمومی اصول کی طرف توجہ مبذول کروائی جائے۔ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ان فرامین سے ماخوذ ہے:
اللہ تعالیٰ کا علم اور حکمت
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَهُوَ العَليمُ الحَكيمُ ﴿٢﴾﴾ … سورة التحریم
’’اور وہ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا ﴿٢٤﴾﴾ … سورة النساء
’’بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
ان اور دیگر بہت سی آیات سے یہ اصول حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور شریعت دونوں میں حکمت پوشیدہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے، اس میں اس کی حکمت کے راز مضمر ہیں۔ اللہ کی حکمت ہر پیدا کردہ یا معدوم چیز میں کارفرما ہے۔ اسی طرح اس کی دی ہوئی شریعت کے ہر حکم میں، خواہ وہ کسی چیز کے وجوب، حرمت، اباحت یا تحریم سے متعلق ہو، ایک خاص حکمت موجود ہے۔
تاہم یہ ایک الگ بات ہے کہ ہمیں ان حکمتوں کا علم ہو یا نہ ہو۔ بعض افراد کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ان حکمتوں کے فہم سے نوازتا ہے۔
جن و انس کی تخلیق کی اصل حکمت
جب یہ اصول سمجھ لیا گیا تو اب ہم عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو ایک عظیم مقصد اور قابل تعریف حکمت کے تحت پیدا فرمایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں مخلوق اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾﴾ … سورة الذاریات
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اور صرف میری ہی عبادت کریں۔‘‘
مزید دلائل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَفَحَسِبتُم أَنَّما خَلَقنـكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم إِلَينا لا تُرجَعونَ ﴿١١٥﴾﴾ … سورة المؤمنون
’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘
اور فرمایا:
﴿أَيَحسَبُ الإِنسـنُ أَن يُترَكَ سُدًى ﴿٣٦﴾﴾ … سورة القیامة
’’کیا انسان خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی بے کار چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘
عبادت کی حقیقت
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنوں اور انسانوں کی تخلیق میں یہی غالب حکمت ہے کہ وہ اللہ ہی کی عبادت کریں۔ عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور محبت اور تعظیم کے ساتھ عاجزی و انکساری کا اظہار کرے۔ یہ اظہار اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو بجا لایا جائے۔
◈ جن امور سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان سے بچا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ﴾ … سورة البينة
’’اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ یک سو ہو کر اللہ کی عبادت کریں۔‘‘
اللہ کی حکمت کے خلاف روش
اسی مقصد کے تحت جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت کے حضور سرکشی کرے اور عبادت سے تکبر کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کی مخالفت کرتا ہے جس کے تحت اسے پیدا کیا گیا تھا۔
اس کا یہ عمل گویا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو عبث پیدا کیا ہے، اگرچہ وہ زبان سے اس کا اقرار نہ کرے، لیکن اس کی سرکشی اور اطاعت سے انکار اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب